اجلاس شیخ الازہرشیخ احمد الطیب نے مصر میں جاری حالیہ سیاسی بحران اور کشیدگی کے خاتمے کےلیے طلب کیا تھا جس میں اب تک لگ بھگ 60 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
واشنگٹن —
مصر کے اسلام پسند اور لبرل سیاست دانوں نے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران میں ہونے والے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے ملک کو درپیش سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کرنے پہ اتفاق کیا ہے۔
اس بات کا فیصلہ جمعرات کو قاہرہ میں واقع معروف اسلامی درس گاہ 'جامعہ الازہر' میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں مختلف سیاسی دھڑوں کے رہنما شریک ہوئے۔
اجلاس شیخ الازہرشیخ احمد الطیب نے مصر میں جاری حالیہ سیاسی بحران اور کشیدگی کے خاتمے کےلیے طلب کیا تھا جس میں اب تک لگ بھگ 60 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اجلاس میں صدر محمد مرسی کی اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' کی اعلیٰ قیادت کے علاوہ مصری حزبِ اختلاف کے اہم رہنمائوں، بشمول اقوامِ متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ محمد البرداعی اور 'عرب لیگ' کے سابق سیکریٹری امر موسیٰ شریک ہوئے۔
اجلاس میں کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ ساتھ نوجوان سیاسی کارکنوں اور ملک کی قبطی عیسائی اقلیت کے نمائندے بھی شریک تھے۔
اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب میں شیخ الازہر نے حاضرین پر زور دیا کہ وہ اپنے باہمی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی راہ نکالیں۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو البرادعی کا کہنا تھا کہ وہ اس اجلاس سے اس امید کے ساتھ جارہے ہیں کہ اس سے صورتِ حال میں بہتری آئے گی۔
انہوں نے یقین دلایا کہ وہ متحارب سیاسی گروہوں کے درمیان اعتماد کی بحالی اور خیرسگالی کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
اجلاس کے شرکا نے ایک دستاویز پر بھی دستخط کیے جس میں پرتشدد احتجاجی مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو صدر مرسی کی جانب سے تجویز کردہ قومی مذاکرات کا اہتمام کرے گی۔
لیکن اس اجلاس کے باوجود مصری حزبِ اختلاف کے سب سے بڑے اتحاد 'نیشنل سالوویشن فرنٹ' نے جمعے کو قاہرہ کے صدارتی محل کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے صورتِ حال کے مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
احتجاج کا حالیہ سلسلہ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے طویل آمرانہ اقتدار کے خلاف چلنے والی کامیاب احتجاجی تحریک کی دوسری سال گرہ کے موقع پر شروع ہوا تھا جو گزشتہ ہفتے منائی گئی تھی۔
حزبِ اختلاف کے رہنما صدر مرسی سے قومی حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں کابینہ میں وزارتیں ملیں گی۔
تاہم صدر مرسی کے اتحادی حزبِ اختلاف کے مطالبے کی مخالفت کر رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ حزبِ مخالف اس مطالبے کے ذریعے اقتدار میں حصہ چاہتی ہے جو اسے انتخابات کے نتیجے میں نہیں مل سکا۔
اس بات کا فیصلہ جمعرات کو قاہرہ میں واقع معروف اسلامی درس گاہ 'جامعہ الازہر' میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں مختلف سیاسی دھڑوں کے رہنما شریک ہوئے۔
اجلاس شیخ الازہرشیخ احمد الطیب نے مصر میں جاری حالیہ سیاسی بحران اور کشیدگی کے خاتمے کےلیے طلب کیا تھا جس میں اب تک لگ بھگ 60 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اجلاس میں صدر محمد مرسی کی اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' کی اعلیٰ قیادت کے علاوہ مصری حزبِ اختلاف کے اہم رہنمائوں، بشمول اقوامِ متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ محمد البرداعی اور 'عرب لیگ' کے سابق سیکریٹری امر موسیٰ شریک ہوئے۔
اجلاس میں کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ ساتھ نوجوان سیاسی کارکنوں اور ملک کی قبطی عیسائی اقلیت کے نمائندے بھی شریک تھے۔
اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب میں شیخ الازہر نے حاضرین پر زور دیا کہ وہ اپنے باہمی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی راہ نکالیں۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو البرادعی کا کہنا تھا کہ وہ اس اجلاس سے اس امید کے ساتھ جارہے ہیں کہ اس سے صورتِ حال میں بہتری آئے گی۔
انہوں نے یقین دلایا کہ وہ متحارب سیاسی گروہوں کے درمیان اعتماد کی بحالی اور خیرسگالی کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
اجلاس کے شرکا نے ایک دستاویز پر بھی دستخط کیے جس میں پرتشدد احتجاجی مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو صدر مرسی کی جانب سے تجویز کردہ قومی مذاکرات کا اہتمام کرے گی۔
لیکن اس اجلاس کے باوجود مصری حزبِ اختلاف کے سب سے بڑے اتحاد 'نیشنل سالوویشن فرنٹ' نے جمعے کو قاہرہ کے صدارتی محل کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے صورتِ حال کے مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
احتجاج کا حالیہ سلسلہ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے طویل آمرانہ اقتدار کے خلاف چلنے والی کامیاب احتجاجی تحریک کی دوسری سال گرہ کے موقع پر شروع ہوا تھا جو گزشتہ ہفتے منائی گئی تھی۔
حزبِ اختلاف کے رہنما صدر مرسی سے قومی حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں کابینہ میں وزارتیں ملیں گی۔
تاہم صدر مرسی کے اتحادی حزبِ اختلاف کے مطالبے کی مخالفت کر رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ حزبِ مخالف اس مطالبے کے ذریعے اقتدار میں حصہ چاہتی ہے جو اسے انتخابات کے نتیجے میں نہیں مل سکا۔