پاکستان میں 37 سال بعد 2020 میں توہینِ مذہب کے ریکارڈ 200 مقدمات درج ہوئے: رپورٹ

فائل فوٹو

پاکستان میں انسانی حقوق، جمہوری ارتقا اور پسماندہ گروہوں کے لیے سماجی انصاف سے متعلق تحقیق اور وکالت سے منسلک ادارے سینٹر فار سوشل جسٹس کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں توہینِ مذہب کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سینٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال یعنی 2020 میں سب سے زیادہ یعنی 200 افراد کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے۔ یہ تعداد توہینِ مذہب کے قانون میں سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں کی گئی ترمیم کے 37 سال بعد سب سے زیادہ ہے۔

اس سے قبل سال 2009 میں سب سے زیادہ 113 افراد پر ان الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے تھے۔

رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 1987 سے 2020 تک کل 1855 افراد پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا گیا جن میں سے 1673 مرد، 84 خواتین اور 97 افراد کی جنس کی شناخت نہیں ہو سکی۔

ملک میں ایک کمپنی کے خلاف بھی توہینِ مذہب کا کیس دائر کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز مذہبی عقائد، مقدس کتب، انبیاء کی توہین، مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا یا دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی دفعات کے تحت درج کیے گئے تھے۔

'زیادہ کیسز اقلیتوں کی بجائے مسلمانوں کے خلاف درج ہوئے'

رپورٹ میں حیرت انگیز انکشاف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ توہینِ مذہب کے کیسز میں مسلمانوں کی غیر مسلموں کے خلاف شکایات کے رحجان میں تبدیلی آئی ہے اور اب مسلمان ہی مسلمانوں کے خلاف اس قانون کے تحت زیادہ مقدمات درج کرا رہے ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس عمل سے قانون کے غلط استعمال سے اقلیتی فرقے یا مذہبی شناخت رکھنے والے سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔

رپورٹ کے مصنفین نے اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس عمل سے ملک میں گہری ہوتی فرقہ واریت کی خلیج اور مذہب کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے رحجان کی نشان دہی ہوتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

توہین مذہب کے قانون کی زد میں آنے والوں کی نصف تعداد مسلمان ہے

تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلمان متاثرین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی کا زیادہ ہونا بھی ہے۔ لیکن غیر مسلم آبادی کی کم تعداد کے باوجود ان کے خلاف ایسے کیسز کا تناسب زیادہ بنتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے الزامات سے متاثرہ مسلمانوں کےخلاف تفتیش کے مرحلے ہی میں مسئلہ حل ہو جاتا ہے، لیکن غیر مسلم متاثرہ افراد کو عام طور پر ان الزامات کا عدالت میں سامنا کرنا پڑتا ہے جو رپورٹ کے مطابق ان کی سزا پر منتج ہوتا ہے۔

'سینٹر فار سوشل جسٹس' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں جن 200 افراد پر توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے، ان میں 75 فی صد مسلمان تھے جس کے بعد 20 فی صد احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے، ساڑھے تین فی صد کے قریب مسیحی اور ایک فی صد ہندو شامل تھے۔

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جن مسلمانوں پر ان قوانین کا اطلاق کیا گیا ان میں سے 70 فی صد شیعہ مسلک کے تھے۔

اسی طرح رپورٹ کے مندرجات کے مطابق 37 سال کے دوران 76 فی صد مقدمات پنجاب جب کہ 19 فی صد سندھ اور خیبر پختونخوا میں دو فی صد مقدمات قائم کیے گئے۔

سال 2020 کے اختتام پر پنجاب کی جیلوں میں ان الزامات کے تحت 337 قیدی موجود تھے۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اب تک اس نوعیت کے الزام کا سامنا کرنے والے 78 افراد کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ جن میں سے 42 مسلمان، 23 مسیحی، نو احمدی، پانچ ہندو اور دو ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے مذہب کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

رپورٹ کے مطابق توہینِ مذہب کے الزامات کو بنیاد بنا کر نفرت کے پرچار، تشدد پسند تنظیموں کی جانب سے ذہن سازی اور فنڈز جمع کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

'قانونی سقم دُور کرنا ضروری ہے'

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کے مطابق سیاسی اشرافیہ اس مسئلے پر کھل کر ایمان داری سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ حالاں کہ ان کے خیال میں اس معاملے کے کئی قانونی حل موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس سے ملک کو معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا میں اس کے تشخص کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی مسئلے کا حل نہیں نکالا جا سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے خلاف ان الزامات پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی ان کی زندگی بھی بعض اوقات خطرے میں ہوتی ہے جب کہ حکومت اس بارے میں معلومات ظاہر کرنے سے بھی گریزاں نظر آتی ہے۔

پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ پہلے اس قانون کے تحت مقدمات میں 50 فی صد مسلمان نامزد ہوتے تھے جو اب بڑھ کر 75 فی صد ہو چکے ہیں۔

ان کے خیال میں قانون میں موجود سقم کو دور کیے بغیر اس قانون کا غلط استعمال نہیں روکا جا سکتا۔

پیٹر جیکب کے خیال میں اس بارے میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کی جانب سے پارلیمان میں سال 2010 میں پیش کی جانے والی ترامیم کافی بہتر معلوم ہوتی ہیں۔

پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ توہینِ مذہب کا سب سے منفرد اور سخت قانون ہمارے ملک میں ہے اور اس کا سب سے زیادہ غلط استعمال بھی ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستانی معاشرے میں توہینِ مذہب کا تصور غلط طور پر سمجھا گیا ہے۔

'قوانین میں ترامیم کی راہ میں رکاوٹ مذہبی طبقہ ہے'

دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن کے عہدے دار بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس قانون میں ضروری ترمیم کے مطالبات کئی بار کیے جا چکے ہیں، لیکن ملک میں موجود مذہبی طبقہ اس کا بڑا مخالف ہے۔

اُن کے بقول سابق جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب قانون میں ان کے بقول متنازع ترامیم کی گئیں تو ہم نے اس قانون کے غلط استعمال اور اس کی زد میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس قانون کے تحت کوئی شکایت درج ہوتی ہے تو حکومت معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیتی ہے اور اس صورت میں وہ فیصلہ نہیں کر سکتی جو انصاف پر مبنی ہو۔

ڈاکٹر مہدی حسن کے خیال میں اس قانون میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے اور اس کی ضروری تشریح بھی کرنا ہو گی۔ تبھی اس کا غلط استعمال روکا جا سکتا ہے۔

'توہینِ مذہب کا قانون فساد روکنے کا ضامن ہے'

لیکن حکومت توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کے الزامات کو رد کرتی آئی ہے اور مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں اس قانون کو اہم سمجھتی ہے۔

وزیرِ اعظم کے نمائندہ برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کے خیال میں رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار غلط اور تجزیہ حقائق کے برعکس ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ نفرت انگیز مواد اور تقریروں کے خلاف ایکشن لینا ہی قانون کا ٹھیک استعمال ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جن افراد کے خلاف کیسز دائر ہوئے ان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں اور ایسے افراد کے خلاف گزشتہ سال محرم کے دوران، اس سے قبل اور بعد میں اشتعال انگیز تقاریر پر کارروائی کی گئی۔

حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ پنجاب میں متحدہ علما بورڈ اور پھر ان کے دفتر کی جانب سے اس قانون کے تحت درج کیے گئے مقدمات پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بورڈ میں تمام مکاتبِ فکر کے علما شامل ہوتے ہیں جو باریک بینی سے شواہد کی روشنی میں ہی رائے دیتے ہیں۔

حافظ طاہر اشرفی کے خیال میں رپورٹ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ تحقیق کے بغیر رپورٹ جاری کی گئی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس قانون کا غلط استعمال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس بارے میں ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔

اُن کے بقول اگر پھر بھی کوئی اس بارے میں ثبوت لائے تو ہم اس کی شکایت دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے 104 کیسز ہیں جن کی مکمل انکوائری کرنے کے بعد لوگوں کو ریلیف دیا گیا اور جھوٹا الزام لگانے والوں کو وارننگ دی گئی۔ حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ تشدد کو روکنے کے لیے قانون ہی کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس لیے اگر توہینِ مذہب کا قانون ختم کر دیا گیا تو یہاں جنگل کا قانون ہو گا۔