پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں بدھ کی رات نامعلوم افراد کی فائرنگ سے احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے شخص کی ہلاکت کے بعد جماعت سے وابستہ افراد نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ مذہبی منافرت کا شاخسانہ ہے۔
خیال رہے کہ پشاور کے نواحی گاؤں شیخ محمد سے تعلق رکھنے والے 61 سالہ معراج احمد کو نامعلوم افراد نے اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ ڈبگری گارڈن میں دکان بند کر کے گھر جا رہے تھے۔
پشاور کے علاقے گلبرگ کے رہائشی معراج احمد کے قتل کا مقدمہ تو درج کر لیا گیا ہے مگر ابھی تک اس واقعے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
معراج احمد کی ہلاکت کے بعد پنجاب کے ضلع چناب نگر سے جماعت احمدیہ نے جاری کردہ پریس ریلیز میں اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے مذہبی جرم قرار دیا ہے۔
سلیم الدین کا مزید کہنا تھا کہ معراج احمد کے خاندان کو طویل عرصے سے احمدی ہونے کی بنا پر مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا ہو رہا تھا جب کہ احمدی ہونے کی بنا پر کئی ملازمین ان کی دکان پر کام کرنے سے انکار کر چکے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے کہا کہ اُنہیں ریاست اور ریاستی اداروں نے مایوس کر دیا ہے۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ جماعت احمدیہ کے لوگوں کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمشن کے رکن کامران عارف ایڈوکیٹ نے معراج احمد کے قتل کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شخص کو مذہب کی بنیاد پر قتل کرنا افسوس ناک ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
معراج احمد کے قتل سے چند ہی روز قبل پشاور ہی کے طاہر نسیم نامی احمدی برادری کے شخص کو مقامی عدالت کے اندر توہین مذہب کے الزام میں ایک نوجوان نے گولیاں مارکر ہلاک کر دیا تھا۔
فیصل عرف خالد نامی اس مبینہ قاتل کو پولیس نے موقع واردات سے گرفتار کر لیا تھا۔