شام: 400 سے زائد امریکی ’میرینز‘ کا انخلا

فائل

اتحاد کے ایک بیان میں، امریکی برگیڈیئر جنرل جوناتھن براگا نے کہا ہے کہ ’’ہم لڑاکا افواج کی تعداد میں کمی لا رہے ہیں، جہاں بھی یہ ممکن ہے۔ تاہم، ہم اب بھی شامی اور عراقی ساتھیوں کی سکیورٹی کو بحال رکھنے کے کام میں مدد دیتے رہیں گے‘‘

داعش کے شدت پسند گروپ سے نبردآزما، امریکی قیادت میں لڑنے والے اتحاد کے مطابق، جس امریکی دستے نے شامی شہر رقہ کا دولت اسلامیہ سے قبضہ واگزار کرایا، اُس میں سے 400 سے زائد امریکی میرینز ملک سے واپس جا رہے ہیں۔

اتحاد کے ایک بیان میں، امریکی برگیڈیئر جنرل جوناتھن براگا نے کہا ہے کہ ’’ہم لڑاکا افواج کی تعداد میں کمی لا رہے ہیں، جہاں بھی یہ ممکن ہے۔ تاہم، ہم اب بھی شامی اور عراقی ساتھیوں کی سکیورٹی کو بحال رکھنے کے کام میں مدد دیتے رہیں گے‘‘۔

براگا نے دولت اسلامیہ کے متبادل نام، داعش کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’داعش کو شکست دینے کے لیے، ہماری افواج پارٹنرز کی فوجوں سے مل کر کام کریں گی، داعش کو پھر سے سر اٹھانے سے روکا جائے گا، اور بین الاقوامی حکومتوں اور غیر سرکاری اداروں (این جی اوز) کے لیے شرائط طے کی گئی ہیں، تاکہ داعش کی عملداری کے مختصر وقت میں سامنے آنے والی دہشت سے مقامی شہریوں کو بچانے کے کام میں مدد دی جا سکے‘‘۔

پینٹاگان نے کہا ہے کہ سرکاری طور پر شام میں 503 فوجی تعینات ہیں۔ لیکن، امریکی اہل کاروں نے گذشتہ ہفتے بتایا ہے کہ یہ تعداد 2000 کے قریب ہے۔

مارچ میں میرینز اور اُن کا بھاری توب خانہ تعینات ہوا، جو کرد، عرب فوجوں اور ’سیرئن ڈیموکریٹک فورسز‘ کے اتحاد میں شریک ہوا۔ اکتوبر میں ایک تیز ترین کارروائی کی گئی، جسے اتحاد کے توب خانے اور فضائی حملوں کی مدد حاصل تھی، جس کے نتیجے مین رقہ پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا گیا۔

قریبی، دیر الزور میں، بین الاقوامی اتحاد مدد فراہم کر رہا ہے، جب کہ حکومت شام کی افواج، جن کی حمایت روسی فوج کر رہی تھی، اُسی علاقے میں علیحدہ طور پر کارروائیاں کرتی رہی ہے۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں آیا شام میں کتنی امریکی فوجیں باقی رہیں گی۔ اِن میں سے زیادہ تر ’اسپیشل آپریشنز‘ کی فوجیں ہیں، جو مقامی ساتھی فوجوں کو تربیت اور مشاورت فراہم کر رہی ہیں، جب کہ داعش کے خلاف توب خانے کی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔