ماسکو کانفرنس کے بعد کیا طالبان حملے روک دیں گے؟

طالبان رہنما ملا عبد الغنی برادر ماسکو کانفرنس میں شرکت کے لئے آرہے ہیں۔

روس کے دارالحکومت ماسکو میں جاری امن کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے پر مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ کی تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی نظر آ رہی ہے۔ عبوری حکومت کا قیام بہترین تصور ہے۔ البتہ اس پر افغان حکومت کو رضامند کرنا اہم ہو گا۔

امریکہ، روس، چین اور پاکستان نے ماسکو افغانستان میں قیامِ امن ہونے والی کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ بیان میں فریقین سے تشدد میں کمی لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

کانفرنس میں شریک ممالک نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ موسمِ بہار میں اپنی کارروائیوں کو ترک کر دیں تاکہ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو سکے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے رابطہ کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے نئے آئین پر اتفاق اور انتخابات منعقد ہونے تک ایک عبوری حکومت بنائی جائے اور اسے امن عمل خراب کرنے والوں سے محفوظ رکھا جائے۔

روس کی میزبانی میں جمعرات کو ہونے والی افغان امن کانفرنس کا انعقاد ایسے موقع پر ہوا ہے جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے۔ انخلا کی ڈیڈ لائن کے مطابق رواں سال مئی میں تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے انخلا مکمل کرنا ہے۔

سیاسی تصفیے کے بغیر فوجی انخلا سے افغانستان میں افراتفری کا خدشہ

بعض مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر غیر ملکی طاقتیں کسی سیاسی تصفیے کے بغیر افغانستان سے نکلیں تو یہ ملک افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔

ماسکو کانفرنس میں افغانستان کی اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور طالبان کے سیاسی امور کے نائب سربراہ ملا عبد الغنی برادر نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان میں عبوری حکومت کی تجویز کی مخالفت کیوں؟

کانفرنس میں امریکہ، پاکستان ،چین اور میزبان روس کے نمائندے بھی شریک تھے۔

کانفرنس کے مشترکہ بیان میں افغان فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں اور افغانستان کو ایک آزاد، خود مختار، پُر امن، متحد، جمہوری اور خود مختار ملک بنانے کے اقدامات کی حمایت کریں۔ جب کہ ملک کو دہشت گردی اور منشیات سے پاک کریں۔

بیان میں افغانستان میں خواتین، بچوں، اقلیتوں اور دیگر کے حقوق کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس بارے میں تجزیہ کار اور پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مینجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان کہتے ہیں کہ امریکہ ماضی کی طرح ’سولو فلائٹ‘ یعنی تنہا معاملات نمٹانے کے بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔

عبد اللہ خان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ نے افغان صدر اشرف غنی کو جو خط لکھا۔ اس میں اقوامِ متحدہ، روس، چین، ایران، بھارت پر مشتمل ایک کانفرنس ترکی میں بلانے کا کہا تھا۔ امریکہ اس وقت مقامی طاقتوں کو آن بورڈ لینا چاہ رہا تھا۔ ماضی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سولو فلائٹ چاہ رہے تھے۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہ رہی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن عمل کو نقصان پہنچانے والوں کا ذکر بھی آ رہا ہے۔ ان میں سے بعض افغانستان کے اندر اور بعض باہر ہیں۔ ان کے بقول افغانستان میں اشرف غنی اس وقت امن عمل کو نقصان پہنچانے والے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان کے نزدیک بھارت امن عمل کو خراب کرنا چاہتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ بھارت کو بھی اس امن عمل کا حصہ بنانے کا خواہش مند ہے اور اس کا مقصد شاید یہ ہے کہ تمام مقامی طاقتوں پر اس عمل کی ذمہ داری ڈالی جائے۔

'روس کے بھی افغانستان میں بہت سے مفادات ہیں'

روس کے حوالے سے عبداللہ خان نے کہا کہ روس کے بھی افغانستان میں بہت سے مفادات ہیں اور وہ بھی افغانستان میں امن چاہتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بائیڈن انتظامیہ کی افغان امن عمل میں تیزی کی کوششیں

ان کا کہنا تھا کہ روس کے بعض علاقوں میں شدت پسندی بڑھی ہے اور اس کا ذمہ دار وہ افغانستان کی صورت حال کو سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حکام اس وقت افغانستان میں موجود تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس بات کی نشاندہی عبداللہ عبداللہ، حکمت یار، شمالی اتحاد کے رہنماؤں اور طالبان رہنماؤں کے دورۂ پاکستان سے ہوتی ہے۔ لہذا تمام تر حالات ایک متفقہ عبوری حکومت کے قیام کی طرف جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے رہیں گے تو انہیں حکومت ملے گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہو گی۔ دنیا اس صورتِ حال کو قبول نہیں کرے گی۔

ماسکو کانفرنس کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی امارات کی بحالی کی حمایت نہیں کیا جا رہی۔ بلکہ افغان حکومت سے کہا جا رہا ہے کہ اس کی قومی مفاہمتی کونسل طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مل کر معاملات طے کرے۔

میزبان ملک روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لارؤف کا کہنا ہے کہ ماسکو افغانستان میں قیام امن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن افغان رہنماؤں کو مرکزی کردار ادا کرنا ہو گا۔

کیا طالبان کارروائیاں ترک کریں گے؟

تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے اور اس کانفرنس میں کم لوگ تھے جس کی وجہ سے اتفاق رائے قائم کرنا آسان تھا۔

انہوں نے کہا کہ تمام شرکا نے موسم بہار میں کارروائیاں ترک کرنے کا کہا ہے اور امکان یہی ہے کہ طالبان آئندہ چند ماہ میں کارروائیاں ترک کر دیں گے۔

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ روس بھی ایک عرصے سے افغان امن عمل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن صرف روس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ افغان امن کے لیے کوئی بریک تھرو حاصل کرسکے۔ اس مقصد کے امریکی تجاویز کو زیادہ اہمیت حاصل ہو گی۔ لیکن اس میں روس بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'امریکہ افغانستان سے گیا تو خانہ جنگی شروع ہو جائے گی'

شاہ محمود قریشی کا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور افغان وزیرِ خارجہ سے رابطہ

ماسکو کانفرنس کے اعلامیے کے اجرا کے بعد پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جس میں افغانستان کی صورتِ حال پر بات چیت کی گئی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ بہت اہم موقع ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور امن خراب کرنے والوں سے محفوظ رکھتے ہوئے اس موقعے کو دیرپا امن کے لیے استعمال کیا جائے۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان ہم منصب محمد حنیف آتمر سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کیا جس میں دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان پاک افغان تعلقات اور افغان امن عمل کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔

دفترِ خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان شروع سے افغان مسئلے کے پر امن، جامع اور دیرپا سیاسی حل کا حامی رہا ہے۔