مغربی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی حکام نے گزشتہ ہفتے واگنر گروپ کی ناکام بغاوت سے تعلق کے شبہے میں روسی فوج کے ایک جنرل کو حراست میں لے لیا ہے۔
اخبار فنانشل ٹائمز اور نیویارک ٹائمز کے مطابق بعض امریکی اور روسی اہلکاروں نے جنرل سرگئی سوروویکن کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ لیکن ماسکو حکومت نے اب تک باضابطہ طور پر اس بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔
جنرل سوروویکن کے بارے میں عام تاثر ہے کہ ان کے واگنر ملیشیا کے سربراہ یوگینی پریگوژن سے اچھے مراسم ہیں۔ جنرل سوروویکن یوکرین میں برسرِ پیکار روسی دستوں کے نائب کمانڈر ہیں جو 24 جون سے منظرِ عام سے غائب ہیں جب واگنر گروپ کے جنگجوؤں نے ماسکو کی جانب پیش قدمی کی تھی۔
ہفتے کو واگنر کے جنگجوؤں کی نقل و حرکت کے بعد جنرل سوروویکن کا ایک ویڈیو بیان منظرِ عام پر آیا تھا جس میں انہوں نے واگنر گروپ سے اپیل کی تھی کہ وہ روسی فوج کے خلاف اپنے اقدامات روک دیں اور اپنی چھاؤنیوں میں واپس چلے جائیں۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا روسی جنرل پر بغاوت سے تعلق کا باضابطہ الزام عائد کیا گیا ہے یا روسی حکام نے انہیں صرف تفتیش کے لیے حراست میں لیا ہے۔
کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے کہا ہے کہ وہ جنرل سوروویکن سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے اور صحافیوں کو اس بارے میں وزارتِ دفاع سے رجوع کرنا چاہیے۔
گزشتہ ہفتے بیلاروس کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے بعد واگنر گروپ نے ماسکو کی جانب اپنی پیش قدمی روک دی تھی جس کے بعد پریگوژن بیلاروس چلے گئے تھے۔ معاہدے کے تحت کریملن نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پریگوژن اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کرے گا۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا پریگوژن اب تک بیلاروس میں ہی ہیں اور نہ ہی یہ پتا چلا ہے کہ ان کے ہمراہ واگنر کے کتنے جنگجو بیلاروس گئے ہیں۔
(اس خبر کے لیے کچھ معلومات رائٹرز، اے ایف پی اور اے پی سے لی گئی ہیں)