رسائی کے لنکس

پنجاب میں احمدیہ کمیونٹی کو قربانی سے روکنے کے لیے پولیس کو ہدایات


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

’’میں نے قربانی کےلیے بکرا لیا تھا لیکن مقامی تھانے کی پولیس نے مجھے گھر آ کر منع کر دیا ہے کہ تمہارے قربانی کرنے پر کچھ لوگ کو اعتراض ہو گا اور ہم تمہارے خلاف مقدمہ درج کریں گے۔‘‘

یہ کہنا ہے گوجرانوالہ کے محلہ امیر پارک کے رہائشی رفاقت (فرضی نام) کا جو پراپرٹی ڈیلر ہیں اور ان کا تعلق احمدیہ کمیونٹی سے ہے۔

رفاقت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے اپنا بکرا ایک قریبی رشتے دار کے گھر بھجوا دیا ہے جو نارووال کے قریب ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔

ان کے بقول اس گاؤں میں اکثریت احمدیہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے اور وہاں رہنے والےلوگوں کو احمدیوں کے قربانی کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم نے تو قربانی ہی کرنی ہے چاہے گوجرانوالہ میں کریں یا نارووال میں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ گوجرانوالہ کے علاقہ نورا کوٹ میں بھی پیش آیا جہاں احمدیہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شہری چوہدری(پورا نام ظاہر نہیں کیا گیا)جب اپنے گھر دو بکرے لے کر آئے تو علاقے کے کچھ لوگوں نے گھر کے باہر بندھے بکروں کی موبائل فون پر تصویریں بنا لیں۔

اسی دوران چوہدری کو ان کے گاؤں کے کچھ خیر خواہوں نے مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ آپ قربانی نہ کریں ورنہ پولیس آپ کو پکڑ کر لے جائے گی۔

عید سے ایک روز پہلے انہوں نے اپنے بکرے سیالکوٹ میں اپنے برادر نسبتی کے گھر بھجوادیے۔

محکمۂ داخلہ پنجاب کا احمدیوں کو قربانی سے روکنے کا مراسلہ

پنجاب میں گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی عیدالاضحیٰ سے کچھ روز قبل 23 جون کو صوبائی ہوم ڈپارٹمنٹ کی طرف سے صوبے کے 36 اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کو ایک مراسلہ بھجوایا گیا تھا۔

مراسلے میں کہا گیا کہ عیدالاضحیٰ کے موقعے پر احمدیہ کمیونٹی کے لوگ قربانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر مسلمانوں کو اعتراض ہوتا ہے جسکی وجہ سے مذہبی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔

محکمۂ داخلہ نے اس مراسلے میں ہدایت کی ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس افسران اس بارے میں پیشگی اقدامات کریں تاکہ لااینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔

مختلف اضلاع میں پولیس نے سرکل اور تھانہ لیول پر احمدیہ کمیونٹی کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہیں ایسے شورٹی بانڈز یا بیان حلفی دینے کے لیے کہا گیا جن میں ان کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ قربانی نہیں کریں گے۔

تھانوں کی پولیس نے یہ شورٹی بانڈز لے کر ضلعی پولیس کی سکیورٹی برانچ میں عید الاضحیٰ سے ایک روز پہلے جمع کرا دیے تھے۔

مختلف اضلاع میں بعض لوگوں نے احمدی افراد کو قربانی سے روکنے کے لیےمتعلقہ تھانوں میں پیشگی درخواستیں بھی دائر کی تھیں۔

ان درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ اگر احمدیہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ قربانی کریں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

ایسی درخواستیں ضلع جھنگ ، فیصل آباد ، حافظ آباد اور ضلع کوٹلی میں دائر کی گئی تھیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگوں کو کہا گیا کہ وہ اگراحمدیہ فرقے کےکسی فرد کو قربانی کرتے یا گوشت تقسیم کرتے دیکھیں تو فورا پولیس کو اطلاع کریں۔

جن مقامات پر احمدیوں سے شورٹی بانڈ لیے گئے ہیں ان میں 194 ر ب جڑانوالہ فیصل آباد ، گاؤں 209 ج ب فیصل آباد ، چک52 ج ب سمندری ، پریم کوٹ حافظ آباد ، بجکہ شریف سرگودھا ، 171 ٹی ڈی اے لیہ ، سبز پیر سیالکوٹ ، سمن آباد فیصل آباد ، تھانہ کینٹ اور تھانہ سول لائن گوجرانوالہ وغیرہ کے علاقے بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال پنجاب میں قربانی کرنے پر احمدیہ کمیونٹی کے خلاف 10 مقدمات درج ہوئے تھے جن میں 26 احمدیوں کو نامزد اور 16 کو گرفتار کیاگیا تھا۔

’چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں‘

احمدیہ کمیونٹی پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے صوبائی محکمۂ داخلہ کے مراسلے کو مسترد کرتے ہوئے پولیس کی کارروائی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پولیس احمدیہ کمیونٹی کے لوگوں کو ہراساں کررہی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جماعتِ احمدیہ ایک محبِ وطن اور قانون پسند جماعت ہے اور ہر پاکستانی احمدی، ملک کے قانون کا احترام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ان تمام حقوق کے حق دار ہیں جو انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر اور پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 20 مذہبی آزادیوں کے ضمن میں ہر پاکستانی شہری کو دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے احمدیوں کے انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں اور ان کی مذہبی آزادیاں سلب کی جا رہی ہیں۔

ترجمان عامر محمود نے کہا کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منصور علی شاہ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا جس میں انہوں نے قرار دیا تھا کہ احمدی اپنی چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پہ عمل کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ پولیس احمدیوں کو ہراساں کر رہی ہے اور بعض شہروں اور قصبوں میں احمدیوں سے زبردستی قربانی نہ کرنے کے شورٹی بانڈز لیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس کے یہ اقدامات آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 اور جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ کے12 جنوری 2022 کو دیے گئے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہیں۔

احمدیوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ

حالیہ کچھ برسوں میں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف اقدامات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جن میں ان کی عبادت گاہوں کے مینار اور گنبد گرائے جانے ، قبروں کی تختیاں مسمار کرنے اور قربانی سے روکنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

رواں سال کراچی میں ایک احمدی وکیل کی طرف سے خود کو سید کہنے پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2022 میں پاکستان میں توہینِ مذہب کے 35 مقدمات درج کیے گئے جن میں 171 افراد کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا اور ان میں سے 65 فی صد مقدمات پنجاب میں درج ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق احمدیوں کی 92 قبروں اور 10عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی گئی اور 105 احمدیوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر مقدمات درج کرائے گئے۔

XS
SM
MD
LG