صوبہ خيبر پختونخوا کے شہر چترال ميں ايک اور امريکی شہری نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کا شکار کيا ہے۔ گزشتہ برس امريکی شکاری، جيمز کيون، نے نر مارخور کے شکار کے بدلے ايک لاکھ پچاس ہزار امريکی ڈالرز کی فيس ادا کی تھی جو کہ اس مد ميں اد کی گئی سب سے بڑی رقم ہے۔
یہ رقم پاکستانی روپوں میں دو کروڑ بیس لاکھ سے زائد بنتی ہے۔
پاکستان کے صوبہ خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان، پاکستان کے زيرِ انتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں مارخور کی کئی اقسام پائی جاتی ہيں۔
ڈويژنل فارسٹ آفيسر چترال، محمد ادريس کے مطابق امريکی شکاری نے يہ شکار ٹوشی-1 کے علاقے ميں کيا۔ وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے محمد ادريس نے بتايا کہ عموماً يہ ناياب جانور سنگلاخ پہاڑوں پر ہوتا ہے ليکن چونکہ اس دفعہ برف باری معمول سے زيادہ ہوئی ہے تو بہت سے مارخوروں کے غول خوراک کی تلاش ميں بلنديوں سے ڈھلوانوں کی طرف آگئے ہيں۔
محمد ادریس کا کہنا تھا کہ جيمز کيون بدھ کو شکار کے سلسلے ميں اپنے ہوٹل سے توشی روانہ ہوئے ليکن وہاں پر ايک شرپسند نے ہوائی فائر کر ديا۔ جس کے بعد علاقے ميں موجود مارخوروں میں بھگدڑ مچ گئی اور پلک جھپکتے تمام نایاب جانور بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ياد رہے کہ مارخور انتہائی تيز رفتار اور چست جانور ہے۔ یہ اُونچے پہاڑوں پر تیزی سے بھاگنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
تاہم جمعرات کی صبح جيمز کيون نے چترال وائلد لائف کے اہلکاروں کو مارخور کے شکار کا اجازت نامہ دکھایا۔ جس کے بعد وائلڈ لائف کے اہلکار انہیں چترال شہر سے توشی کے علاقے کی جانب لے گئے۔
توشی کے مقام پر پہنچ کر محکمہ جنگلی حيات کے اہلکاروں نے گاڑی روک دی جہاں ايک بڑے نالے ميں کھڑے مارخور کو امريکی شکاری نے پہلے ہی فائر ميں ڈھير کر ديا۔ جس کے بعد محکمہ جنگلی حيات کے اہلکار مارخور کے سينگ کی پيمائش کرتے ہيں اور بعد ميں شکاری کے حوالے کر ديتے ہيں جسے وہ بطور ٹرافی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
يار رہے کہ پاکستان ٹرافی ہنٹنگ اسکيم کے تحت ہر سال قومی جانور کے 12 پرمٹ کی نيلامی کرتا ہے جو کہ خيبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان ميں برابر تقسيم ہوتے ہيں۔ گزشتہ سال صوبہ خيبر پختونخوا نے چار لائسنس کے بدلے پانچ لاکھ ڈالر سے زائد فيس وصول کی۔ ٹرافی ہنتنگ اسکيم کے تحت ملنے والی رقم کا 80 فی صد مقامی آبادی کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔
محمد ادریس کا کہنا ہے کہ ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کا علاقے پر بہت مثبت اثر پڑا ہے۔ اس سے مارخور کے غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
ان کے بقول اسکیم کے تحت ملنے والی رقم سے علاقے میں ترقیاتی کام کرائے گئے ہیں۔ جن میں مساجد کی تعمیر، آبپاشی کا نظام جبکہ مارخور کے تحفظ کے لیے گارڈز بھی رکھے گئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں مارخور کے غیر قانونی شکار کی وجہ سے صوبے میں مارخوروں کی تعد بہت کم ہو گئی تھی۔ لیکن اب یہ تعداد چھ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
لیکن بعض لوگ حکومت کی اس ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ ناقدین ٹرافی ہنٹنگ مہم کو مارخوروں کی چند پیسوں کے عوض نسل کُشی قرار دیتے ہیں۔
چوہدری محمد جمشيد اقبال ڈبليو ڈبليو ايف ميں بطور منیجر ريسرچ اينڈ کنزرويشن کام کرتے ہيں۔ وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بيايا کہ بطور کنزرويٹر وہ مارخور ٹرافی ہنٹنگ اسکيم کی حمايت کرتے ہيں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے نایاب جانور کو معدوم ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 90 کی دہائی میں شروع کی گئی اس مہم کے ذریعے مارخوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ شکاری صرف اس نر مارخور کا شکار کر سکتا ہے جس کی عمر 10سال سے زائد ہو۔
چوہدری جمشيد اقبال کے مطابق مارخور کی اوسط عمر 15 سال تک ہوتی ہے اور جس جانور کا شکار کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے وہ اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے قریب ہوتا ہے۔