حقیقی کے رہنما آفاق احمد کی بدھ کو رہائی کا امکان

حقیقی کے رہنما آفاق احمد کی بدھ کو رہائی کا امکان

مہاجر قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم حقیقی کے رہنما آفاق احمد کوبدھ کی شام تک رہا کئے جانے کا امکان ہے۔آفاق احمد کے وکیل محمد فاروق کے مطابق 1992 میں آفاق احمد پر قائم ہونے والے فاروق قتل کیس میں سزا کے خلاف اپیل میں ضمانتی مچلکے بدھ کو جمع کرا دیئے جائیں گے جس کے بعد رہائی کے احکامات جاری ہو جائیں گے ۔

ادھر ایک مقامی خبر رساں ادارے نے خبر دی ہے کہ"محکمہ داخلہ سندھ نے آفاق احمد کو لانڈھی جیل منتقل کر نے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جبکہ ضمانت کے تمام انتظامات بھی مکمل کرلئے گئے ہیں۔ آفاق احمد کی قتل کے آخری مقدمے میں 10 لاکھ روپے کی ضمانت منظور ہونے کے بعد عدالت کی جانب سے آفاق احمد کو رہا کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔"

رہائی کے حوالے سے مہاجر قومی موومنٹ کے کارکنوں نے تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور کارکن آفاق احمد کا پرجوش انداز میں استقبال کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔گزشتہ روز بھی اس حوالے سے پارٹی کے ہیڈکوارٹرمیں جشن منایا گیا جس میں کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

آفاق احمد اورایم کیو ایم : حقیقی

آفاق احمد مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے چیئرمین ہیں۔وہ 1962 میں کراچی میں ہی پیدا ہوئے ۔انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے ۔طالب علمی کے دور میں ہی وہ اے پی ایم ایس او یعنی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سرگرم رکن بن گئے ۔ بعد میں انہوں نے الطاف حسین کی قیادت میں مہاجر قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی ۔

نوے کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران آفاق احمداور الطاف حسین میں اختلافات پیدا ہوگئے ۔ الطاف حسین نے قومی دھارے میں شامل ہونے کیلئے مہاجر قومی موومنٹ کا نام متحدہ قومی موومنٹ سے تبدیل کر دیا جبکہ آفاق احمد اور عامر خان نے اس اقدام سے اختلاف کرتے ہوئے مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے نام سے الگ دھڑا قائم کر لیا۔ آفاق احمد چیئرمین اور عامر خان ایم کیو ایم حقیقی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔

مہاجر قومی موومنٹ بننے سے کچھ عرصہ بعد ہی فاروق نامی ایک شخص کے قتل کے الزام میں آفاق احمد اور عامر خان کو عمر قید کی سنادی گئی جسے بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا ۔ اس دوران آفاق احمد اور عامر خان کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہوگئے۔ عامر خان نے مئی دو ہزار گیارہ میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے معافی مانگتے ہوئے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی۔

آفاق احمد کو دو ہزار چار میں کراچی کے علاقے ڈیفنس سے قتل اور ہنگامی آرامی کے مقدمات میں گرفتارکیا گیا ۔ اسیری کے دوران دو ہزار نو میں عید گاہ تھانے میں متحدہ قومی موومنٹ کے رکن عتیق الرحمن کے قتل کا مقدمہ ان کے خلاف درج کیا گیا ۔ ثبوتوں اور گواہوں کی عدم دستیابی پریہ مقدمہ التوار کا شکار ہو گیا۔ بعدازاں آفاق احمد کی جانب سے اس مقدمے میں بریت کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ان کا اس مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ،جس پر سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ پیر کو ان کی دس لاکھ روپے کی ضمانت منظور کر لی۔

منگل کو ٹرائل کورٹ میں ایڈیشنل جج شرقی نے پانچ ، پانچ لاکھ روپے کے سیونگ سرٹیفکیٹ جمع کرنے پر ان کی ضمانت پر رہائی منظور کر لی جبکہ قتل کے ایک اور مقدمہ میں ملیر کی عدالت نے بھی انہیں رہا کر دیا تاہم 29 جون 1992 کو متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن فاروق کو قتل کرنے کے الزام میں پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع نہ کرانے پر ان کی رہائی عمل میں نہ لائی جا سکی ۔

آفاق احمد کے وکیل محمد فاروق نے صحافیوں کو بتایا کہ فاروق قتل کیس کی سزا کے خلاف اپیل میں پانچ لاکھ روپے کے مچلکے بدھ کو جمع کرا دیئے جائیں گے جس کے بعد ان کی رہائی عمل آسکے گی کیونکہ یہ ان کا آخری مقدمہ ہے ۔ یاد رہے کہ اسی مقدمہ میں آفاق احمد کے ساتھ ساتھ عامر خان بھی نامزد تھے تاہم انہیں مئی دو ہزار گیارہ میں رہا کر دیا گیا تھا۔

آفاق کی رہائی کراچی کے سیاسی منظر نامے میں اہمیت کی حامل

آفاق احمد کی رہائی کی خبر شاید پورے ملک کے لئے معمولی نوعیت کی ہو مگر کراچی کے رہائشیوں کے لئے یہ خبر انتہائی اہم ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور حقیقی دونوں ایک دوسرے کی شدید مخالف ہیں ۔اس طرح ان کے جیل سے باہر آنے کے بعد دونوں جماعتوں کے نظریاتی اختلافات کسی ٹکراوٴ کا باعث نہ بن جائیں ۔ اگر خدانہ خواستہ ایسا ہوا تو کراچی میں جو ایک طویل عرصے بعد امن قائم ہوا ہے وہ پھر سے خراب نہ ہوجائے۔

گزشتہ ماہ یعنی28 اگست کو سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے ایک پریس کانفرنس میں جولائی دو ہزار گیارہ کو آفاق احمد سے جیل میں ملاقات کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں سیاسی اسیر قرار دیا تھا جس پر متحدہ قومی موومنٹ نے شدید احتجاج کیا تھا۔

اے این پی کے رہنما شاہی سید کا کہنا ہے کہ حقیقی بھی کم یا زیادہ مگر عوامی نمائندگی رکھتی ہے ۔ ان کا یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ متحدہ کے مقابلے میں حقیقی کو سپورٹ کرسکتے ہیں۔