ایم کیو ایم پاکستان نے جمعے کو پارٹی کے بانی رہنما الطاف حسین سے 23 اگست کے اعلان لاتعلقی کے بعد نشتر پارک کراچی میں پہلا جلسہ منعقد کیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ جلسے کا بنیادی مقصد ایم کیو ایم لندن سے علیحدگی کے فیصلے پر عوامی توثیق کی پرکھ کرنا تھا۔
ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستار اور فیصل سبزواری سمیت دیگر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ عوامی توثیق حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں، ورنہ، بقول اُن کے، ’’عوام اتنی بڑی تعداد میں جلسے میں شرکت نہ کرتی‘‘۔
پارٹی کے موجودہ سربراہ فاروق ستار نے خطاب میں کہا ’’عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے ثابت کر دیا ہے کہ کراچی آج بھی ایم کیو ایم کے ساتھ ہے۔ جلسہ ایم کیو ایم کے23 اگست کے اقدام کی حمایت کا اعلان ہے۔‘‘
فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ ’’جلسے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ 2018 میں ہونے والے انتخابات میں بھی فتح ہماری ہی ہوگی‘‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’عوام نے تقسیم کرنے والوں کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنے کم وسائل سے اتنا پروقار جلسہ کسی کا نہیں ہوا۔ یہ ایم کیو ایم کے بڑے جلسوں میں سے ایک ہے جو دراصل 2018ء کے نتائج کا مظاہرہ بھی ہے۔‘‘
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’اگر مردم شماری درست انداز میں ہوئی تو اگلا وزیر اعظم کراچی سے بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
جلسے سے ایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں نے بھی باری باری خطاب کیا جن میں کراچی کے میئر وسیم اختر، ڈپٹی میئر ارشد ووہرا، خواجہ اظہار الحسن، خالد مقبول صدیقی اور عامر خان سمیت متعدد رہنما شامل تھے۔
رہنماؤں کے خطاب میں اس بات پر زور رہا کہ کراچی کے عوام نے انہیں الطاف حسین سے لاتعلقی کے بعد پہلے جیسی اہمیت دی ہے یا نہیں؟ رہنماؤں نے ان خیالات کا بھی بار بار اظہار کیا کہ پارٹی تقسیم نہیں ہوئی ہے۔
جلسے میں اندرون سندھ، پنجاب اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی خطاب کیا اور سندھی و پنجابی کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں میں بھی اظہار خیال کیا۔
میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ’’عوام کی طاقت کو رد نہ کیا جائے، یہاں کے عوام نے ہمیں مینڈٹ دیا ہے، یہ مینڈٹ لوکل گورنمنٹ کا مینڈٹ ہے۔‘‘
وسیم اختر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سن 1986 سے زیادہ مضبوط ہے اور عوام ایم کیو ایم پاکستان کے پلیٹ فارم پر متفق ہے۔‘‘
ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’حکمراں جانتے ہیں کہ کراچی جاگتا ہے تو وہ سوتے ہیں۔‘‘
خواجہ اظہار الحسن نے کہا ’’مردم شماری ہماری لیے زندگی اور موت کا سوال ہے، ہمیں اب فیصلہ کن جنگ کرنی ہے۔ مردم شماری پر ہمارے ساتھ کچھ غلط ہوا تو ہم سڑکوں پر آئیں گے۔‘‘
انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو آڑے ہاتھوں لیا۔
بقول اُن کے ’’کچھ لوگ ہم سے استعفے مانگ رہے ہیں، خود جیت نہیں سکتے، ملیر سے سیٹ کیا چلی گئی خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ کراچی برائے فروخت نہیں ہے اور نہ ہی کرائے پر دستیاب ہے۔‘‘
عامر خان نے کہا کہ ہم 2018ء کے الیکشن میں کامیابی حاصل کریں گے اور پہلےسے زیادہ نشستوں پر جیت کر دکھائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ایم کیو ایم وہی لوگ چلائیں گے جو کارکنوں کے ساتھ ان کے غم میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم ثابت کریں گے کہ ایم کیو ایم ایک ہے، تھی اور رہے گی۔ ہم اپنی قوم اور پاکستان کے غدار نہیں۔ ہم پاکستان میں سب کچھ لٹا کر آئے تھے، لوٹنے نہیں‘‘۔
عامر خان نے ایم کیو ایم لندن اور پی ایس پی کے بعض رہنماؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور الزامات عائد کئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممبر سازی مہم ختم ہونے کے بعد مزار قائد پر تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کریں گے۔
انہوں نے ’سی پیک‘ منصوبے کو ملکی ترقی کے لئے مفید قرار دیا اور کہا کہ اس منصوبے کے تحت کراچی میں سرکلر ریلوے کو بھی شامل کیا جائے۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے تاریخی جلسے کے اعلان پر ایم کیو ایم کے رہنما ندیم نصرت نے ایک بیان میں کہا کہ ’’بڑا جلسہ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اصل معاملہ بیلٹ بکس کا ہے۔ بیلٹ بکس ہی فیصلہ کرتا ہے کہ عوام کس کی حمایت کرتے ہیں اور کس کی نہیں‘‘۔
ایم کیو ایم لندن کے علاوہ پی ایس پی رہنما مصطفیٰ کمال نے بھی ایم کیو ایم کے تاریخی اور بڑا جلسہ کرنے کے دعویٰ کی پہلے ہی نفی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نشتر پارک جیسی چھوٹی جگہ میں تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرنے کی بات ان کے لئے مضحکہ خیز ہے۔