این اے 240 ضمنی انتخاب: 'ٹی ایل پی نے ایک بار پھر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا '

کراچی کے حلقہ این اے 240 میں جمعرات کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے کانٹے کے مقابلے کے بعد میدان مار لیا ہے۔ تاہم مذہبی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ایک بار پھر سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے۔

این اے 240 کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم اپنی روایتی نشست بمشکل بچانے میں کامیاب تو ہوگئی ہے لیکن انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین اس ضمنی انتخاب کے نتائج کو کراچی میں آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا منظرنامہ سمجھنے کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن میں بریلوی مکتبِ فکر کی نمائندہ تحریک لبیک پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔

اگرچہ یہ ضمنی انتخاب ایسی نشست پر ہو رہا تھا جو ایم کیو ایم کی روایتی نشست سمجھی جاتی تھی لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ایم کیو ایم کی تنظیمی کمزوریوں اور اسے درپیش چیلنجز سے دیگر سیاسی جماعتوں نے فائدہ اُٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس ضمن میں ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی، پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے مصطفٰی کمال اور مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد خود حلقے میں موجود رہے۔

اس حلقے میں ووٹرز کی کل تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 855 تھی لیکن ڈالے گئے درست ووٹوں کی تعداد محض 43 ہزار 948 رہی یعنی یہ شرح محض 8.38 فی صد رہی۔ ایم کیو ایم کے امیدوار محمد ابو بکر نے 10 ہزار 683 ووٹ جب کہ ان کے قریب ترین مد ِمقابل ٹی ایل پی کے شہزادہ شہباز نے 10 ہزار 618 ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح مہاجر قومی موومنٹ 8 ہزار 383 ووٹ حاصل کرکے تیسرے اور مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی 4 ہزار 797 ووٹ حاصل کرکے چوتھے نمبر پر رہی۔


ماضی کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالی جائے تو 2018 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی نے 61 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ تحریک لبیک کے محمد آصف 30 ہزار 535 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رے تھے۔

سال 2013 کے عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 2018 کے عام انتخابات میں تیسرے نمبر پر آگئی تھی۔ 2013 کے انتخابی دنگل میں بھی ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی ایک لاکھ 47 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ جب کہ جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) کے شاہ اویس نورانی نے 18 ہزار 722 ووٹ حاصل کیے تھے۔

'یہاں مذہبی ووٹ بینک پہلے سے ہے'

انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار اویس توحید کا کہنا ہے کہ 70 کی دہائی میں یہ علاقہ جے یو پی کا گڑھ تھا اور یہاں سے علامہ شاہ احمد نورانی جیت چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقے میں مذہبی ووٹ بینک پہلے سے موجود تھا۔

اُن کے بقول ایم کیو ایم یہاں سے جیتتی آئی ہے اور 2016 کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن کے بعد بعض کارکن دلبرداشتہ ہوکر ٹی ایل پی اور پی ایس پی میں شامل ہوگئے تھے۔ اس سے قبل مہاجر قومی موومنٹ اور سنی تحریک کا بھی اثر و رسوخ اس حلقے میں زیادہ رہا ہے۔

اویس توحید کہتے ہیں کہ حالیہ نتائج میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ مہاجر قومی موومنٹ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ لہذٰا نتائج بتاتے ہیں کہ ٹی ایل پی کی بہت کم ووٹوں سے ہار درحقیقت ان کی جیت ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں ٹی ایل پی جس کا احیا سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مجرم ممتاز قادری کی پھانسی کے واقعے سے ہوا نے اپنی ماضی کی سرگرمیوں سے واضح کیا ہے کہ ان کی سیاست مولانا نورانی کی بریلوی سیاست سے کہیں دور اور پُر تشدد ہے۔

یاد رہے کہ تحریک لبیک نے علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں 2017 میں انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے معاملے پر متنازع ترمیم کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔

دوسری بار 2019 میں توہین مذہب کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کے تحت بھی دھرنا دیا گیا۔ اس دوران تحریک کے نئے سربراہ علامہ سعد رضوی کو حکومت نے نظر بند بھی کیا جس کے بعد ہنگامہ آرائی میں کئی شہری اور پولیس اہل کار ہلاک اور زخمی بھی ہوئے تھے۔

حکومت نے ان واقعات کے بعد اس جماعت کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن دھرنا ختم کرانے کے لیے عمران خان حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا اور اس پر عمل درآمد کی قانونی کارروائی روک دی گئی تھی۔ جب کہ ریاست کو ٹی ایل پی کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی ختم کرنا پڑ گئے تھے۔

'ٹی ایل پی کی نظریں اب بلدیاتی الیکشن پر ہیں'

اویس توحید کے خیال میں تحریک لبیک نے ایک بار پھر پنجاب کے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے شہر میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔

اُن کے بقول ٹی ایل پی آئندہ بلدیاتی انتخابات بالخصوص کراچی میں دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج کے طور پر ابھرے گی۔

ان کاکہنا تھا کہ کراچی کی تاریخ ویسے بھی مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد سے بھری ہوئی ہے اور ایسے میں ٹی ایل پی کے بڑھتے ہوئے ووٹوں کی تعداد خطرناک اور تشویش کی بات ہے۔ جب کہ ضمنی انتخاب میں تشدد کے واقعات میں ایک شخص کی ہلاکت اور دس سے زائد زخمی ہونے سے ان خدشات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ کراچی میں سیاسی تشدد کی فضا دوبارہ بن رہی ہے اور بلدیاتی انتخابات کہیں زیادہ پُرتشدد اور ہنگامہ خیز ہوسکتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ بھی دیکھا جانا ضروری ہے کہ اس ضمنی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم یعنی 8.38 فی صد کیوں رہی؟

صحافی ضیاء الرحمٰن کے خیال میں اس کم ٹرن آوٹ کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک تو یہ کہ ملک میں ضمنی انتخاب میں دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں ہمیشہ کم ہی ووٹ پڑا ہے۔ جب کہ اس علاقے کے رہائشی زیادہ تر مزدور پیشہ اور ورکنگ کلاس کے افراد ہیں۔

اُن کے بقول پولنگ شروع ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی پُرتشدد کارروائیاں شروع ہوگئیں جس کی بنا پر لوگ ڈر کے مارے ووٹ ڈالنے نہ نکلے اور آخر کے چند گھنٹوں میں ٹرن آؤٹ بڑھنے کا امکان بھی کم ہوگیا۔ اسی طرح گزشتہ دو عام انتخابات میں دوسرے نمبر پرآنے والی جماعت تحریک انصاف اور پھر جماعت اسلامی نے بھی ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا جس کی وجہ سے ووٹ پڑنے کی شرح کم رہی۔

ضیاء الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ مولانا شاہ احمد نورانی کے برعکس ماضی میں سُنی تحریک نے بریلوی سیاست کے ذریعے تشدد کو متعارف کرانے کی کوشش کی لیکن وہ جلد ہی ناکام ہوگئی اور اس کے بعد ٹی ایل پی نے یہی کوشش ناموس رسالت کے نعرے پر کی ہے۔ اور ان کے بھی خیال میں یہ جماعت بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔

واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے اس وقت تین ارکان سندھ اسمبلی کے رکن ہیں۔ ان میں سے دو ارکان منتخب جب کہ خواتین کی ایک مخصوص نشستوں پر بھی تحریک لبیک کی رکن اسمبلی میں موجود اور اپوزیشن بینچز پر براجمان ہیں۔

ادھر کراچی این اے240 میں ضمنی الیکشن میں ہنگامہ آرائی کے الزام میں لانڈھی تھانے میں پاکستان سرزمین پارٹی کے چئیرمین مصطفی کمال کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔