سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے مبینہ بیرونی سازش کے معاملے پر تحریکِ انصاف کے رہنماؤں اور افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار کے مابین لفظی نوک جھونک کے باعث یہ معاملہ پھر شہ سرخیوں میں ہے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار نے منگل کو نجی ٹی وی 'دنیا' نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں مسلح افواج کے سروسز چیف کے علاوہ انٹیلی جنس سربراہان بھی موجود تھے اور ان سب کا اتفاق تھا کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی۔
البتہ تحریکِ انصاف کے رہنماؤں اسد عمر نے ردِعمل میں کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اگر سیاسی معاملات کی تشریح نہ کریں تو بہتر ہو گا۔ عمران خان نے بھی بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ تعین نہیں کرنا کہ حکومت کے خلاف بیرونی سازش ہوئی یا نہیں ہوئی، وہ صرف رائے دے سکتے ہیں، اس بات کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ ہی کر سکتی ہے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان نے عمران خان کے حلیف اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے اس بیان کی بھی تردید کی کہ آرمی چیف یا سروسز چیف نے امریکی سازش سے انکار نہیں کیا۔ بابر افتحار کا کہنا تھا کہ وہ فوج کی ترجمانی کرتے ہیں اور جب وہ بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ادارے کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ اداروں پر تنقید کوئی نئی بات نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اِس میں مزید شدت آ سکتی ہے۔ بہتر ہو گا کہ اِس طرح کے معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھایا جائے۔
شیخ رشید کا بیان حالیہ نوک جھونک کی وجہ؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر سمجھتے ہیں کہ شیخ رشید احمد نے بیرونی سازش سے متعلق بیان میں فوج کی ترجمانی کی کوشش کی اور یہ تاثر دیا کہ آرمی چیف سمیت سروسز چیف نے مبینہ سازش کی نفی نہیں کی۔ اسی لیے ترجمان پاک فوج کو شیخ رشید کے اس بیان کی تردید کرنا پڑی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے آخری اجلاس میں امریکہ میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سفیر اسد مجید کو بھی بلایا گیاتھا۔ جس میں اُنہوں نے واضح کیا کہ حکومتِ پاکستان کو بھجوائے گئے سائفر میں سازش کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
'فوج اور تحریکِ انصاف کے درمیان بداعتمادی ہے'
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ جس طرح ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور فوج کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا، اسی طرح اب تحریکِ انصاف اور فوج کے درمیان بداعتمادی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ڈی جی آئی ایس پی آر اسی طرح وضاحتیں دیتے رہیں گے تو فریقین کے درمیان خلیج مزید بڑھے گی۔
اُن کے بقول ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کی صورت میں ہر ممکن تعاون کریں گے۔ اس سے تحریکِ انصاف اور فوج کے درمیان بداعتمادی کم ہو گی۔
حامد میر سمجھتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان چونکہ ایک مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔ وہ ریاستی اداروں پر اپنی تنقید سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان نے پہلے امریکہ مخالف بیانیہ بنایا اور اِس کے بعد اُنہوں نے فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاسی قیادت، سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ میں موجود لوگ تھوڑی سی بھی فوج پر تنقید کرتے تھے یا اختلاف رائے کرتے تھے تو اُنہیں نشانِ عبرت بنایا جاتا تھا۔ لیکن موجود حالات میں ایک تاثر قائم ہو رہا ہے کہ عمران خان کھل کر فوج کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں اور فوج وضاحتیں دے رہی ہےجس سے عمران خان کو سیاسی فائدہ ہو رہا ہے۔
اپنی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رُکن قومی اسمبلی علی وزیر کی مثال دیتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی حکومت جوڈیشل کمیشن کے قیام کا عمران خان کا مطالبہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ عمران خان ایک من گھڑت بیانیے کے ذریعے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ پاکستان میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی سب سے بڑا سول اور عسکری فورم ہے۔
اُن کے بقول اس فورم نے دو مرتبہ عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی بھی غیر ملکی سازش کی نفی کی ہے جب کہ افواجِ پاکستان کے ترجمان بھی دو مرتبہ بیرونی سازش کو رد کر چکے ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے عمران خان کے اصرار پر جوڈیشل کمیشن بنا بھی دیا تو بھی وہ اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر اسے تسلیم نہیں کریں گے۔
جنرل (ر) غلام مصطفٰی کہتے ہیں کہ کمیشن بنانے کا مطالبہ عمران خان کا ہے۔ اگر کمیشن غیر جانب دار بنے گا تو وہ ضرور اُس کے فیصلے کو تسلیم کر لیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہا اگر کمیشن بن گیا اور عمران خان نے اُس میں پیش ہو کر اپنا مؤقف دیا تو کمیشن کے فیصلے کا ماننے یا نہ ماننے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ماضی کی حکومتیں بھی ریاستی اداروں اور اُن کے سربراہوں کے نام لے کر تنقید کرتی اور الزام لگاتی رہی ہیں۔
جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قوم کے سامنے ایک کمیشن بن جائے اور اُس میں سب چیزیں لائی جائیں۔ اگر پی ٹی آئی غلط کہہ رہی ہے تو فوج سرخرو ہو جائے گی۔
حامد میر کے خیال میں اگر عمران خان کی درخواست پر جوڈیشل کمیشن بن جائے اُس کو جو بھی فیصلہ آئے گا عمران خان اُسے بھی تسلیم نہیں کریں گے اور یہی کہیں گے کہ شفاف تحقیقات نہیں ہوئیں۔
اُن کے بقول اگر حکومت عمران خان کے کہنے پر فوری الیکشن کرا بھی دے اور وہ الیکشن نہ جیت سکے تو بھی وہ دھاندلی کا الزام عائد کریں گے۔