پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ’آزادی مارچ‘ اور مذہبی و سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے ’انقلاب مارچ‘ جمعرات کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا۔
حکومت نے انھیں وفاقی دارالحکومت میں ’زیرو پوائنٹ‘ تک آنے کی اجازت دی جہاں جمعرات کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور اسلام آباد انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے جمعرات کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کسی بھی تخریب کاری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اُنھوں نے کہا کہ منفی سیاست کو اب خیرباد کہہ کر سب کو مثبت سیاست کی طرف آنا چاہیئے۔
’’پانچ سالوں کے بعد الیکشن ہو گا تو ہم اگر انتخابات نہیں جیتتے تو کم از کم ایک اچھا پاکستان ان کے حوالے کر کے جائیں گے۔‘‘
عمران خان نے لاہور میں زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ سے روانگی سے قبل اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا کہ وہ ہر صورت اسلام آباد پہنچیں گے۔
’’نا گرمی کی فکر کروں گا، نا کنٹینروں کی فکر کروں گا، اسلام آباد پہنچوں گا، آپ میرے ساتھ پہنچیں گے اور اس ملک میں ایک نئے پاکستان کا سورج طلوع ہو گا۔‘‘
طاہر القادری نے روانگی سے قبل کہا کہ اُن کا انقلاب مکمل طور پر پرامن اور جمہوری ہو گا۔ ’’ہم پورے پاکستان کو اُس طرح جمہوری، متعدل اور پرامن معاشرہ بنائیں گے جیسا مغربی دنیا میں دیکھتے ہیں۔‘‘
وزیراعظم کا عمران خان اور طاہر القادری کے احتجاجی مارچ پر کہنا تھا کہ ’’یہاں پر کوئی کہتا ہے کہ میں انقلاب مارچ کروں گا کوئی کہتا ہے کہ آزادی مارچ کروں گا۔ آزادی مارچ تو یہ ہے کہ یہاں سول لیڈر شپ اور ملٹری لیڈر شپ 14 اگست کو ایک جگہ بیٹھ کر پاکستان کا یوم آزادی منا رہے ہیں اس سے بڑا آزادی مارچ کیا ہو سکتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کے یہ روایت جاری رہنی چاہیئے۔‘‘
پنجاب کے گورنر چوہدری غلام سرور نے جمعرات کو میڈیا کو بتایا کہ طاہرالقادری سے طویل رابطے اور مشاورت کے بعد اُن کی جانب سے اس یقین دہانی کے بعد کہ اُن کا ’انقلاب مارچ‘ پرامن ہو گا۔ اس مارچ کی اجازت دی گئی۔
اس احتجاجی مارچ سے قبل لاہور اور اسلام آباد کے بیشتر راستے کنٹینر کھڑے کر کے بند کر دیئے گئے تھے لیکن حکام کے مطابق جمعرات کو راستے کھول دیئے گئے۔
وفاقی دارالحکومت میں بدستور بیشتر راستے بند ہیں، خاص طور پر اہم سرکاری عمارتوں اور سفارت خانوں کی عمارتوں پر مشتمل علاقے ’ریڈ زون‘ کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔
کنٹینر کھڑے کرنے کے علاوہ ریڈ زون کی طرف جانے والے راستوں کی کھدائی کر کے وہاں خندقیں بھی بنا دی گئی ہیں۔ حکومت کے مطابق اسلام آباد اور اس کے اردگرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 21 ہزار اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔