جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمران پیپلز پارٹی کی رکن اور سابق وزیر اطلاعات شیری رحمن نے مطالبہ کیا کہ مختاراں مائی کی آبرو ریزی کرنے والے چھ میں سے پانچ افراد کی رہائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت اپیل دائر کر کے اُنھیں انصاف دلائے۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے میں مختاراں مائی کی مدد کریں کیونکہ اُن کے بقول اپنے طور پر پچھلے نو سال کے دوران انصاف کے حصول کی کوششوں نے مختاراں کو تھکا دیا ہے۔
لیکن ایوان میں اس اہم مسئلے پر تقریر کے دوران وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی بظاہر بٹی ہوئی توجہ پر شیری رحمن کو خاصا زور دے کر اُنھیں اپنی جانب متوجہ کرنا پڑا ۔ ”وزیراعظم اور وزیرداخلہ سے مودبانہ اپیل ہے کہ وہ ایک منٹ کے لیے میری طرف متوجہ ہوں اور میں اپنی طرف سے اور ساری خواتین کی طرف سے یہ درخواست بھی کروں گی کہ اس معاملے پر دھیان دیں۔ کیوں کہ وہ خاتون (مختاراں مائی) شاید ہمت ہار چکی ہے، صبح میری جب اُن سے بات ہوئی تو روتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اب وہ کیسے نظر ثانی کی اپیل کریں۔“
شیر ی رحمن نے کہا کہ خود مختاراں مائی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے اُنھیں عدم تحفظ کا شکار کردیا ہے کیونکہ اب مجرم کھلے عام پھریں گے اس لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختاراں مائی کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
اُنھوں نے ملک کے پولیس نظام پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مختاراں مائی کی آبرو ریزی ایک ایسا جرم تھا جس کے بارے میں سب ہی آگاہ تھے اور سب جانتے ہیں کہ اس میں ملوث افراد کس قدر بااثر ہیں۔ لیکن شیری رحمن نے کہا کہ محض پولیس کے ناقص تفتیشی نظام کے سبب ملزمان سزا سے بچ نکلے ہیں۔ تاہم جب اُنھوں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور جج صاحبان پر تنقید کرنے کی کوشش کی تو اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر نے اُنھیں ایسا کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ عدلیہ کے فیصلو ں یا ججوں کے رویوں پر قانون پارلیمان میں تنقید کی اجازت نہیں دیتا۔
شیر ی رحمن کے نکتہ اعتراض کاجواب دیتے ہوئے رحمن ملک نے ایوان کو بتایا کہ وزیر اعظم نے انھیں ہدایت کردی ہے کہ مختاراں مائی کو تحفظ فراہم کیا جائے اور اس مقصد کے لیے وہ پنجاب حکومت سے بھی رجوع کریں گے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ مختاراں مائی کو جس قسم کی بھی قانونی معاونت کی ضرورت ہوگی حکومت انھیں مہیا کرے گی۔
مختاراں مائی کی اجتماعی آبرو ریزی میں ملوث پانچ افراد کوکمزور شواہد کی بنیاد پر رہا جبکہ عبدالخالق نامی چھٹے شخص کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں کڑی تنقید کررہی ہیں۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عدلیہ انھیں بلکہ بدعنوانی کا شکار اور بااثر افراد کے زیر اثر پاکستان میں پولیس کا نظام دراصل مختاراں مائی اور ایسے جرائم میں ملوث دیگر مجرموں کی رہائی کا سبب ہے۔