امریکی ریاست ورجینیا میں بھی مسافر برف میں پھنسے رہے لیکن مری جیسی صورتِ حال کیوں نہ ہوئی؟

دو روز قبل شدید برفباری کے باعث مری میں سیکڑوں سیاح اپنی گاڑیوں سمیت پھنس گئے تھے۔

امریکہ، یورپ سمیت دنیا کے دیگر خطوں میں شدید برف باری کے باعث طویل ٹریفک جام اور اس میں بڑی تعداد میں لوگوں کے پھنس جانے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کی ریاست ورجینیا میں یہ صورتِ حال پیش آئی تھی لیکن وہاں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے برعکس پاکستان کے معروف سیاحتی مقام مری میں ہفتے کو سڑکوں پر پھنسنے والی گاڑیوں میں ہلاکتوں کے بعد اس سانحے کے اسباب زیرِ بحث ہیں۔

مری واقعے پر ماہرین اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بروقت امدادی کارروائیاں شروع نہ ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ہنگامی صورتِ حال میں اختیار کی گئی تدابیر سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بھی سنگین حالات پیدا ہوئے۔

ملک گلزار کھوکھر مری میں شدید موسم میں پھنسنے والے مسافروں میں شامل تھے جو وہاں پیش آنے والی صورتِ حال کے عینی شاہد بھی ہیں۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ ثمن خان سے اپنی گفتگو میں گلزار کھوکھر نے بتایا کہ انہوں نے برفباری کے دوران گاڑی میں پھنسنے والے افراد کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کیں تاکہ حالات کا اندازہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ برفباری کا آغاز جمعے کی صبح ہوا تھا جس کے بعد وہاں پھنسے ہوئے افراد نے مدد کے لیے رابطے کرنا شروع کر دیے تھے لیکن مقامی انتظامیہ کی جانب سے امدادی کارروائیوں کا آغاز اگلے دن یعنی ہفتے کو ہوا۔

گلزار کھوکھر کے بقول، "گاڑیوں میں جو لوگ فیملی کے ساتھ تھے وہ باہر نہیں نکل رہے تھے اور گاڑیوں میں ہیٹر چلا کر بیٹھے تھے۔"

Your browser doesn’t support HTML5

مری میں جان لیوا سرد رات کی کہانی، عینی شاہد کی زبانی

وزیرِ اعلی پنجاب عثمان بزدار کو واقعے کی پیش کی گئی ابتدائی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ برف باری کے دوران گاڑیوں میں بیٹھے 22 افراد کاربن مونو آکسائیڈ سے ہلاک ہوئے۔

آئی جی نیشنل ہائی ویز اور موٹر وے پولیس انعام غنی نے ہفتے کو اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ کاربن مونو آکسائیڈ ایک بے بو گیس ہے جس کا اخراج کا پتا لگانا انتہائی مشکل ہے اور یہ تیزی کے ساتھ موت کا باعث بنتی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اگر آپ کی گاڑی برف میں پھنس گئی ہے اور گاڑی کا انجن چل رہا ہے تو اپنی کھڑکی کو تھوڑا سا کھلا رکھیں اور دھواں نکالنے والے سائلنسر پائپ سے برف ہٹاتے رہیں۔

عینی شاہد ملک گلزار کھوکھر کا کہنا تھا کہ حکومت صرف وہاں لوگوں کو یہ آگاہی فراہم کرنے کے بورڈ ہی لگا دیتی کہ اگر آپ برف میں پھنس جائیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ اگر کہیں بورڈ پر یہ لکھا ہوتا کہ گاڑی کے شیشے مکمل بند کر کے ہیٹر نہ چلائیں تو بہت سی جانیں بچ جاتیں۔

سوشل میڈیا پر مری کے واقعے کے اسباب سے متعلق دیگر خطوں میں ہونے والے واقعات سے اس کا موازنہ بھی کیا جا رہا ہے۔

ورجینیا اور مری

گزشتہ ہفتے امریکہ میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جب ریاست ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی کو ملانے والی انٹر اسٹیٹ ہائی وے 95 پر 20 گھنٹے سے زائد طویل ٹریفک جام ہوا اور اس دوران برفانی طوفان کے دوران 11 انچ تک برف بھی پڑی۔ اس صورتِ حال میں وہاں موجود مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہلاکت کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔

امریکہ کی نیشنل ویدر سروس اور مقامی پولیس نے لوگوں کو رات کے اوقات میں سردی کی شدت کے باعث غیر ضروری طور پر سفر سے گریز کرنے کا انتباہ جاری کیا تھا۔

لیکن وہ مسافر جو آئی 95 ہائی وے پر پہنچ چکے تھے اور اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے انہیں اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ایک ٹرک برفباری سے ہونے والی پھسلن کے باعث سڑک کے بیچ میں پھنس گیا جس کے پیچھے آنے والی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

مری: سیاحوں سے بھرے رہنے والے مال روڈ پر اب کیا صورتِ حال ہے؟

ریاست ورجینیا کے شہر رچمنڈ سے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے درمیان 40 میل سڑک پر مسافروں کو ٹریفک جام کے ساتھ ساتھ برفانی طوفان کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔

اس طوفان کے دوران فی گھنٹہ دو انچ برف پڑی اور درجہ حرارت منفی نو ڈگری سینٹی گریڈ تک گر چکا تھا۔ کئی مقامات پر لوگوں کو 18 گھنٹوں تک کچھ کھائے بغیر رہنا پڑا۔ تاہم طوفان اور ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے افراد میں سے کسی کی جان گئی اور نہ ہی طبی امداد دینے کی ضروت پیش آئی۔ البتہ شدید موسم میں پھنسنے والے ڈرائیورز اور مسافروں نے امدادی کارروائیاں شروع ہونے میں تاخیر پر برہمی کا اظہار ضرور کیا تھا۔

SEE ALSO: مری کی برف باری میں اموات کا ذمہ دار کس کو ٹھیرایا جائے؟

سوشل میڈیا پر ایک اور صحافی قاضی نصیر عالم نے برطانیہ میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ایسے ہی ایک واقعے کی تفصیلات میں اس جانب اشارہ کیا کہ حکومت کے پاس گاڑیوں کی آمدورفت کا ریکارڈ اور ریسکیو کے لیے وافر عملہ موجود تھا۔ گاڑیوں میں بیٹھے افراد کو بروقت خوراک اور حرارت کے لیے سامان مہیا کیا جاتا رہا۔

ان کے بقول اگر سڑکوں پر صرف دو چار لاکھ روپے کا نمک ڈال دیا جاتا تو منفی پانچ درجہ حرار تک بھی سڑکیں قابل استعمال رہتیں۔ لوگوں کو ذمے دار قرار نہ دیا جائے بلکہ یہ بتایا جائے کہ برفباری سے قبل سڑکوں پر سالٹنگ کی گئی؟

سوشل میڈیا صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کو بھی موسم کی رپورٹنگ کے ساتھ سخت حالات میں اختیار کی جانے والی تدابیر کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافی احتشام الحق نے امریکی نیوز چینل اے بی سی کا ایک کلپ شیئر کیا ہے جس میں اینکر گاڑی میں کاربن مونو آکسائیڈ سے بھرنے سے روکنے اور برف میں پھنسنے کی صورت میں احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی فراہم کر رہی ہیں۔

یہ کلپ شیئر کرنے کے ساتھ انہوں نے تبصرہ کیا ہے کہ ہمارے میڈیا کو اس سے سیکھنا چاہیے۔

مسافروں کو کیا آگاہی دینے کی ضرورت ہے؟

عام طور پر شدید سرد موسم کے علاقوں میں سفر کرنے والوں کے لیے حکومتی ادارے وارننگز جاری کرتے ہیں۔

امریکہ میں موسم کی تباہ کاریوں کے باعث ہونے والے مالی اور جانی ضیاع سے بچاؤ کے لیے موسم سے متعلق اطلاعات فراہم کرنے والی نیشنل ویدر سروس (این ڈبلیو ایس) کی ویب سائٹ پر برفباری میں پھنسنے کی صورت میں اختیار کی جانے والی تدابیر بتائی گئی ہیں۔

اس میں گھر کے اندر، باہر اور گاڑی میں ہونے کی صورتوں میں الگ الگ حالات سے متعلق احتیاطی اقدامات کے بارے میں آگاہی دی گئی ہے۔

این ڈبلیو ایس کے مطابق راستے میں اگر طوفان کا سامنا کرنا پڑے تو گاڑی کے اندر رہیں۔ گاڑی کے انجن کو ایک گھنٹے کے دوران صرف دس منٹ تک چلائیں۔ اگر انجن چلا ہوا ہے تو گاڑی میں زہریلی گیس بھرنے سے روکنے کے لیے کھڑکی کا شیشہ کچھ کھلا رکھیں تاکہ تازہ ہوا کا گزر ہوتا رہے۔

اس کے علاوہ یہ خیال بھی رکھیں کہ برفباری سے گاڑی کا سائلنسر بند نہ ہو کیوں کہ اس صورت میں زہریلی گیس گاڑی کے اندر بھر سکتی ہے۔

این ڈبلیو سی کا کہنا ہے کہ برفباری کے موسم میں سفر پر نکلنے سے پہلے موبائل فون کو چارج کرلیں۔ گاڑی میں ایندھن کی مقدار چیک کریں اور اس کے علاوہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری سامان کی ایک کٹ بھی اپنے ہمراہ رکھیں۔

اس کٹ میں ٹارچ، ابتدائی طبی امداد کا سامان، خوراک، اوزار وغیرہ شامل ہونے چاہیٔیں۔

اس تحریر میں شامل بعض معلومات ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئ ہیں۔