پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایڈمنسٹریٹر اور پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کے طور پر مزید کام نہیں کر سکتے۔
مرتضیٰ وہاب نے یہ اعلان سندھ ہائی کورٹ میں بجلی کے بلوں کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی کے کیس کی سماعت میں پیش ہونے کے بعد کیا۔
کراچی میں پیر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کراچی الیکٹرک (کے-الیکٹرک)کے ذریعے ماہانہ 200 روپے ٹیکس وصول کرنے کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی ٹیکس لگا سکتی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے پیر کو معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کے الیکٹرک کے ذریعے ٹیکس وصولی پر سوال اٹھایا تھا جب کہ عدالت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو آئندہ سماعت تک بجلی کے بلوں میں 200 روپے ٹیکس وصولی سے روک دیا۔
پریس کانفرنس کے دوران مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ میونسپل یوٹیلٹی چارجز اینڈ ٹیکسز (ایم یو سی ٹی) کی اصطلاح پانچ جون 2008 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے متعارف کرائی تھی اور اس وقت سے لے کر آج تک یہ ٹیکس لیاجاتا رہا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں تاجروں سے ٹیکس لینا اتنا مشکل کیوں؟متحدہ قومی موومنٹ کی گزشتہ بلدیاتی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق میئر وسیم اختر کے دور میں یہ ٹیکس 'اسپرنٹ پرائیوٹ لمیٹڈ' نامی کمپنی کے ذریعے جمع کیا جاتا تھا جس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا البتہ انہوں نے ایک سال کی محنت کے بعد کراچی الیکٹرک (کے الیکٹرک) کو یہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے قائل کیا۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کو ٹیکس اکٹھا کرنے کی ذمے داری دینے کا مقصد یہ تھا تاکہ ٹیکس جمع کرنے کے عمل میں شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔
'کے ایم سی کے اکاؤنٹ میں سوا تین ارب روپے ٹیکس جمع ہونے کا ہدف تھا'
ان کے بقول " وسیم اختر کے دور میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف ایک ارب روپے تھا لیکن 20 سے 21 کروڑ روپے سالانہ ٹیکس اکٹھا کیا جاتا تھا جس میں سے چار کروڑ روپے سے زائد رقم سروس چارجز کی مد میں پرائیوٹ کمپنی کو ادائیگی کی جاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ " ہم نے فیصلہ کیا کہ پرائیوٹ کمپنی کے بجائے کے الیکٹرک کے ذریعے ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا، کیوں کہ قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ٹیکس بلدیہ عظمیٰ کراچی کسی اور کے ذریعے اکٹھا کر سکتی ہے۔"
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کے الیکٹرک کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ کے الیکٹرک ماہانہ بنیاد پر کے ایم سی کے اکاؤنٹ میں اکٹھا کیا جانے والا ٹیکس ٹرانسفر کرے گا۔ اس طرح کے ایم سی کے اکاؤنٹ میں سالانہ سوا تین ارب روپے ٹیکس آنا تھا۔
ان کے بقول جب یہ پیسے آئیں گے تو شہر بہتر ہو گا اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے نہیں پڑیں گے۔
مرتضیٰ وہاب کے مطابق سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کے زمانے میں یہ ٹیکس 200 روپے سے شروع ہو کر 5000 روپے تک جاتا تھا لیکن انہوں نے اہلِ کراچی کو ریلیف دیتے ہوئے ٹیکس کی شرح کم سے کم 50 روپے اور زیادہ سے زیادہ 200 روپے کر دی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ اس شہر کے اداروں کے پاس پیسہ ہو اور کے ایم سی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔