رسائی کے لنکس

بھارت میں مسلمانوں کی تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ کے خلاف ایکشن کی وجہ کیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ سے 2007 میں سرگرمیوں کا آغاز کرنے والی مسلمانوں کی ایک تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ (پی ایف آئی) سرکاری اداروں کے نشانے پر ہے۔ جمعرات کو 11ریاستوں میں اس کے دفاتر اور عہدیداروں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے گئے جب کہ اس تنظیم کے مرکزی صدر اور ریاستی صدور سمیت 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔

پی ایف آئی کے کارکنوں نے جمعے کو کئی ریاستوں میں احتجاج بھی کیا۔ ریاست مہاراشٹرا کے شہر پونے میں احتجاج کے دوران ایک ایسی مشتبہ ویڈیو سامنے آئی، جس میں پی ایف آئی کے کارکن مبینہ طور پر ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

مہاراشٹرا کے وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شنڈے اور نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے ہفتے کو بتایا کہ ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

ادھر جعلی خبریں یعنی فیک نیوز جانچنے والی ویب سائٹ ’نیوز لانڈری‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے حق میں کوئی نعرہ نہیں لگایا گیا بلکہ ’پاپولر فرنٹ زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا جا رہا تھا۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) ساگر پاٹل نے کہا ہے کہ وائرل ہونے والی ویڈیو کی جانچ کی جا رہی ہے۔ ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

این آئی اے نے منگل کو دوبارہ پی ایف آئی کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ یہ چھاپے ریاست دہلی، کرناٹک، آسام، مہاراشٹرا، اترپردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور تیلنگانہ میں ڈالے گئے۔ چھاپوں کے دوران 170 سے زائد افراد کو یا تو حراست میں لے لیا گیا یا گرفتار کر لیا گیا۔

نشریاتی ادارے نیوز 18 کے مطابق مرکزی ایجنسیو ں کو اس سے قبل جمعرات کو مارے جانے والے چھاپوں اور گرفتاریوں کے خلاف پی ایف آئی کی جانب سے پرتشدد مظاہروں اور بعض مرکزی وزرا اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماؤں پر خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔

دہلی میں شاہین باغ اور حضرت نظام الدین کے علاقوں میں چھاپے ڈالے گئے۔ اس موقع پر جامعہ نگر میں بڑی تعداد میں سیکورٹی جوان تعینات کیے گئے۔ پورے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹس کی جانب سے مظاہروں پر پابندی عاید کر دی گئی۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کیا ہے؟

بھارت کے جنوب میں واقع ریاستوں کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو میں سرگرم تین مسلم تنظیموں نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ایف)، کرناٹک فورم فار ڈگنٹی (کے ایف ڈی) اور منیتھا نیتھی پسرائی (ایم این پی) نے 2006 میں باہمی انضمام کے بعد ایک متحدہ پلیٹ فارم کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے 16 فروری 2007 کو بنگلور میں ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ (پی ایف آئی) نامی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا۔

پی ایف آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ اقلیتوں، ہندوؤں کی نچلی ذات دلت، قبائلیوں اور کمزور طبقات کے حقوق کے لیے سرگرم ہے۔

اس وقت کم از کم 18 ریاستوں میں پی ایف آئی سرگرم ہے۔ بھارت میں مجموعی طور 28 ریاستیں ہیں جب کہ مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام بھی آٹھ علاقے موجود ہیں۔

کیرالہ اور کرناٹک میں اس کے عوامی جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے رہے ہیں۔ پی ایف آئی کے مطابق اس کے فنڈز کا استعمال مسلمانوں، دلت اور قبائلی افراد کے لیے فلاحی کاموں پر خرچ کیے جاتے ہی۔ اس تنظیم کے ماتحت تعلیمی ادارے اور اسپتال قائم ہیں۔

جب مرکزی حکومت کی جانب سے 2019 میں شہریت کے قانون میں ترمیم کے بعد مختلف علاقوں میں احتجاج ہوا، تو پی ایف آئی نے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا۔

بی جے پی کے رہنماؤں اور حکومت کے بعض وزرا کی جانب سے اس پر سی اے اے مخالف تحریک کی فنڈنگ کا الزام لگایا گیا تھا۔

بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پی ایف آئی دائیں بازو کی احیا پسند ہندو تنظیم ’راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ‘(آر ایس ایس) کے طرز پر مسلمانوں کے درمیان متحرک تنظیم ہے۔کچھ مبصرین پی ایف آئی کو ’مسلمانوں کا آر ایس ایس‘ قرار دیتے ہیں۔

’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ پر الزامات کیا ہیں؟

سرکاری اداروں کی جانب سے پی ایف آئی پر بھارت میں اسلامی حکومت کے قیام کی سازش، دہشت گردی، کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ اور شدت پسند گروہ داعش سے رابطوں، مسلمانوں کو داعش میں شامل ہونے کے لیے راغب کرنے اور انہیں عسکری تربیت دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

بھارت کی مختلف ریاستوں میں حکومتیں اس تنظیم پر پابندی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

حال ہی میں مرکزی وزارتِ داخلہ نے مرکزی ایجنسیوں کو خبردار کیا تھا کہ پی ایف آئی خلیجی ممالک میں منظم نیٹ ورک کے توسط سے فنڈز جمع کرنے میں مصروف ہے اور اسے غیر قانونی ذرائع سے بھارت منتقل کیا جا رہا ہے۔

پی ایف آئی کے کارکنوں پر قتل، فساد اور دھمکیاں دینے کا بھی الزام ہے۔

ریاست کیرالہ کی حکومت نے 2012 اور 2014 میں ہائی کورٹ میں داخل حلف ناموں میں کہا تھا کہ پی ایف آئی سے وابستہ افراد قتل کے 27 وارداتوں میں ملوث ہیں۔

بی جے پی اور آر ایس ایس کا الزام ہے کہ اس کے بھی متعدد حامیوں کو پی ایف آئی کے کارکنوں نےنشانہ بنایا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی ایف آئی بھارت میں کالعدم تنظیم ’اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا‘ (سیمی) کی دوسری شکل ہے۔

سال 2011 میں توہینِ مذہب کے الزام میں کیرالہ کے ایک مسیحی پروفیسر ٹی جے جوزف کا ہاتھ قلم کر دیا گیا تھا، جس کا الزام پی ایف آئی پر عائد کیا گیا تھا۔

اس معاملے میں 2015 میں ارناکلم کی ایک این آئی اے عدالت نے اس تنظیم کے 13 کارکنوں کو قصوروار ٹھہرایا تھا جب کہ 18 کو بری کر دیا گیا تھا۔

پی ایف آئی کی تردید

پی ایف آئی اپنے اوپر عائد الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ اس کے مطابق وہ معاشرے میں مساوات اور سب کے ساتھ انصاف کے لیے متحرک ہے۔

اس کے مرکزی جنرل سیکریٹری انیس احمد نے کچھ دن قبل وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ پی ایف آئی چوں کہ اقلیتوں، دلتوں اور قبائلیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہے، اسی لیے اس پر بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں۔

انہوں نے پی ایف آئی کے ’مسلم آر ایس ایس‘ ہونے کے الزام کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آر ایس ایس ملک میں ہندوتوا کے نظریے کو پروان چڑھانے میں مصروف ہے۔ اس کے نظریات ملک کے دستور کے خلاف ہیں، اس لیے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

پی ایف آئی کے کیرالہ کے جنرل سیکریٹری اے عبد الستار نے چھاپوں کے بعد ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ پی ایف آئی چوں کہ بھار ت کو ’ہندو اسٹیٹ‘ بنانے کے لیے آر ایس ایس کے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے مرکزی حکومت اس کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے۔

ان کے مطابق پی ایف آئی تین دہائیوں سے قانونی طور پر کام کر رہی ہے اور حکومت تخریبی سرگرمیوں میں اس کے ملوث ہونے کے الزام کو ثابت نہیں کر سکی ہے۔

مسلم تنظیموں کا ردِ عمل

بھارت کی متعدد مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے پی ایف آئی کے ٹھکانوں پر چھاپوں اور گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس سے جمہوری اقدار کو دھچکہ لگا ہے۔ یہ اقدام حکومت پر تنقید کے شہریوں کے حق کے منافی ہے۔

انہوں نے اسے ووٹ بینک کی سیاست قرار دیا۔

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ آٹھ برسوں سے مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقات کے حقوق پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔

انہوں نے پی ایف آئی کے خلاف کارروائی کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو طاقتیں مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دیتی ہیں، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے بھی اس کارروائی کی مذمت کی۔

مسلمانوں پی ایف آئی کی طرف کیوں مائل ہوئے؟

مبصرین کے مطابق 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد مسلمانوں میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے مسلمان بڑی تعداد میں پی ایف آئی کی جانب مائل ہوئے ہیں۔

پی ایف آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے جب کہ لاکھوں افراد اس کے حامی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ خلیجی ممالک میں بھی بڑی تعداد میں اس کے حامی موجود ہیں۔

حالیہ برسوں میں کرناٹک کے ساحلی علاقوں میں متوسط مسلم گھرانوں میں پی ایف آئی کے اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔

بنگلور کے بعض صحافیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کرناٹک کے بعض تعلیمی اداروں میں حجاب تنازع میں پی ایف آئی کا اسٹوڈنٹ ونگ ’کیمپس فرنٹ آف انڈیا‘ (کے ایف آئی) شامل رہا ہے۔

ان کے مطابق تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کی اسلامی شناخت کے رد، عمل میں ہندو تنظیمیں بھی سرگرم ہو گئی ہیں اور انہوں نے حجاب کے مقابلے میں زعفرانی دوشالوں کا مظاہرہ کیا۔

پی ایف آئی نے شروع میں خود کو سیاست سے دور رکھا تھا البتہ پھر اس کی سرپرستی میں 2009 میں ’سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا‘ (ایس ڈی پی آئی) نامی ایک سیاسی جماعت قائم کی گئی جو کہ کرناٹک میں انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں اس نے بی جے پی کو خاصی ٹکر دی ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی کو تشویش لاحق ہے۔

مبصرین کے مطابق بی جے پی کو خدشہ ہے کہ آئندہ برس اسمبلی کے انتخابات میں اس کا ایس ڈی پی آئی سے سخت مقابلہ ہو سکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG