لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دینے کے لئے فل بنچ تشکیل دے دیا ہے۔
پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی۔
پرویز مشرف کی درخواست پر چیف جسٹسں لاہور ہائی کورٹ نے فل بینچ تشکیل دے دیا۔ جس کی سربراہی لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کرئیں گے۔ بینچ میں جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس مسعود جہانگیر بھی شامل ہیں۔
فل بینچ آئندہ سال 9 جنوری کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔
پرویز مشرف کی درخواست پر فل بینچ بنانے کی سفارش جسٹس مظاہر نقوی نے کی کی تھی۔
پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے موکل نے یہ درخواست خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے پہلے دائر کی تھی۔
اظہر صدیق کے مطابق پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے سابق اٹارنی جنرل نے اس وقت کہا تھا کہ یہ معاملہ سنگین غداری کا کیس بنتا ہی نہیں ہے۔ اس کیس پر 2010 سے 2013 تک مکمل خاموشی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری ناصر سعید کھوسہ نے یہ درخواست دائر کرائی تھی۔
’’2007 کے اقدام کو 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد کہا گیا کہ یہ غیر قانونی ہے۔ اگر عدالت کی تشکیل کو ہی کالعدم قرار دے دیا گیا تو اُس عدالت کا سنایا گیا فیصلہ بھی خودبخود ختم ہو جائے گا”۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر پرویز مشرف کے سنگین غداری کیس کے لئے خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل پر اہم نکات اٹھائے گئے ہیں۔ جس پر بحث کے لئے انہوں نے چیف جسٹس سے فل بنچ بنانے کی سفارش کی تھی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ پرویز مشرف کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت بیان ہی موجود نہیں۔
پراسکیوشن نے کہا ہے کہ خصوصی کمشن پرویز مشرف کے پاس بھجوایا جائے۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کا بیان ہی نہ ہو اور فیصلہ سنا دیا جائے۔