بھارت: ہندوؤں کی مذہبی تقریب میں پتھراؤ ، مسلمان ملزمان کی سرِ عام پٹائی

فائل فوٹو

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے کھیڑا ضلع کی ایک ایسی مبینہ ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک بڑے میدان میں باری باری سے چار پانچ نوجوان لائے جاتے ہیں اور میدان میں بجلی کے کھمبے سے ان کو لٹکا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک شخص ان کے دونوں ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور سادے لباس میں ملبوس ایک شخص لاٹھی سے ان کی بری طرح پٹائی کرتا ہے۔

میدان میں ایک طرف پولیس کی گاڑی کھڑی ہے اور قریب ہی عوام کا ایک بہت بڑا ہجوم ہے۔ وہاں کئی پولیس اہلکار بھی موجود ہیں۔ پٹائی کرنے کے بعد نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہجوم سے معافی مانگیں۔ وہ چلاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہیں اور لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ پھر ان نوجوانوں کو پولیس وین میں بٹھا دیا جاتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق یہ تمام نوجوان مسلمان ہیں اور ان پر ہندو مذہب کی ایک تقریب ’گربا ڈانس‘ میں پتھراؤ کرنے کا الزام ہے۔ پٹائی کرنے والا پولیس اہلکار معلوم ہوتا ہے۔

کھیڑا ضلع کے متار تعلقہ کے اُندھیلا گاؤں کے سرپنچ اندرودن پٹیل کی جانب سے پولیس میں درج کرائی گئی رپورٹ کے مطابق انہوں نے چوک میں واقع بھوانی مندر میں گربا کا پروگرام منعقد کیا تھا۔

ان کے مطابق مندر سے متصل ایک مدرسے کی دیوار ہے اور وہاں ایک مسجد بھی ہے۔ جب وہ او ران کے اہلِ خانہ پیر کی شب گربا ڈانس میں مصروف تھے تو انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک گروپ وہاں پہنچ گیا اور گالی گلوچ کرنے اور گربا بند کرانے لگا۔ اتنے میں کافی لوگ جمع ہو گئے۔ انہوں نے وہاں توڑ پھوڑ شروع کر دی اور پھر پتھراؤ ہونے لگا۔

موقع واردات پر پہنچنے والے نڈیاڈ کے ڈی ایس پی وی آر واجپئی کے مطابق 43 افراد کی نشان دہی کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ انہی میں سے کچھ لوگوں کو اگلے روز چوک کے میدان میں لایا گیا اور سرِعام ان کی پٹائی کی گئی۔


احمد آباد رینج کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) وی چندر شیکھر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مذکورہ ویڈیو کی صداقت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کہ ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) راجیش گاڈھیا کے مطابق وہ مبینہ ویڈیو کی جانچ کریں گے۔

مبینہ پولیس اہلکاروں کی اس کارروائی کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔ کانگریس کے دو ارکان اسمبلی عمران کھیڑاوالا اور غیاث الدین شیخ نے کہا کہ نوجوانوں کی پٹائی کرنے والا شخص پولیس اہلکار ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جن پولیس اہلکاروں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ان کو فوراً معطل کیا جائے۔

سابق آئی پی ایس اور چھتیس گڑھ کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس محمد وزیر انصاری کے مطابق پولیس کی یہ کارروائی خلاف قانون ہے۔ اس کا کام سزا دینا یا انصاف کرنا نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ صرف افسوس ناک ہے بلکہ پولیس کی 'غنڈہ گردی' بھی ہے۔ پولیس کو چاہیے تھا کہ وہ پتھراؤ کرنے والوں کو گرفتار کرتی، ان کے خلاف رپورٹ درج کرتی، اس معاملے کی پوری طرح جانچ کرتی اور پھر ملزموں کو عدالت میں پیش کرتی۔

نئی دہلی کے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن تپن بوس کا کہنا ہے کہ پولیس کی یہ کارروائی جرائم پیشہ عناصر جیسی کارروائی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک طرف آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت مسلمانوں سے بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایسے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔

ریاستی مسلمانوں کی ایک تنظیم ’مدھیہ گجرات مسلم سماج سیوا سمیتی‘ کے صدر عبد الکریم ملک نے بھی مبینہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اگر پولیس محکمہ اس معاملے میں تادیبی کارروائی نہیں کرتا ہے تو ہم ان پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر مجبور ہوں گے۔

رپورٹس کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پتھراؤ کا آغاز کیسے ہوا۔ عبد الکریم ملک کہتے ہیں کہ چونکہ گربا کے دوران زبردست شور ہو رہا تھا اس لیے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ فساد ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے پتھراؤ ہوا۔ پتھراؤ دونوں جانب سے ہوا جو تصادم میں تبدیل ہو گیا۔

یاد رہے کہ کئی مقامات پر گربا ڈانس کے پروگراموں میں بعض مسلمان نوجوانوں کے داخل ہونے پر تنازعات پیدا ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی پٹائی کی مبینہ ویڈیوز وائرل ہیں۔ شدت پسند ہندو تنظیموں نے رضاکاروں کی ٹیم بنائی ہے جو شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو ان پروگراموں میں جانے کی اجازت دیتی ہے۔ ان میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

گربا کے پنڈالوں میں باؤنسرز تعینات کیے جاتے ہیں۔ منگل کو سورت میں وشو ہندو پرشید اور بجرنگ دل کے کچھ کارکن لاٹھی ڈنڈوں سے لیس ہو کر ایک پنڈال میں داخل ہوئے اور باؤنسرز کی پٹائی کرنے لگے۔ ایک باؤنسر زخمی ہوا باقی ماندہ بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ باؤنسر مسلمان تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گجرات میں دسمبر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اسی لیے بقول ان کے مذہب کی بنیاد پر کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

SEE ALSO: بھارت میں ’دسہرہ‘ تہوار جوش وخروش سے کیوں منایا جاتا ہے؟

سینئر تجزیہ کار انیس درانی کا کہنا تھا کہ تہواروں سے سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو فروغ دیا جاتا ہے لیکن شدت پسند تنظیموں کے کارکن ان سے سماج میں مذہبی منافرت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس طرح ان نوجوانوں کی پٹائی کی گئی وہ خلاف قانون تو ہے ہی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

محمد وزیر انصاری اور تپن بوس کا کہنا تھا کہ گجرات کی پولیس جو کچھ کر رہی ہے اس کو ریاستی حکومت اور حکمراں جماعت کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح وہ اپنے ہندو ووٹرز کو ایک پیغام دے رہے ہیں۔ بقول وزیر انصاری گجرات کی پولیس حکمراں جماعت کے نظریات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حکومت کی جانب سے ووٹ کے حصول کے لیے کشیدگی پیدا کرنے کے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

بی جے پی کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے بدھ کو ناگپور میں دسہرہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آر ایس ایس کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور اقلیتوں کو ہندووں اور آر ایس ایس سے خوف زدہ کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق اس قسم کی باتیں کہہ کر سماج کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہندو منظم ہو گئے ہیں اس لیے اقلیتوں کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ایسا نہ تو ماضی میں ہوا نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔ بقول ان کے آر ایس ایس اتحاد، بھائی چارے اور امن کی بات کرتا ہے۔