میانمار: سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائی، مزید روہنگیا مسلمان گھر چھوڑنے پر مجبور

فوجی کارروائی کے ڈر سے روہنگیا مسلمان سرحد پار بنگلہ دیش جا رہے ہیں۔ فائل فوٹو

میانمار کے راکھین صوبے میں متوقع فوجی کارروائی کے پیش نظر ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں مقامی روہنگیا آبادی گھروں سے بھاگ رہی ہے۔ تاہم حکومت نے ہفتے کو اعلان کیا ہے کہ سرحدی علاقوں کے حکام نے انخلا کا حکم نامہ واپس لے لیا ہے۔

راکھین ریاست کے ایک مقامی انتظامی سربراہ نے انتباہ کیا تھا کہ فوج درجنوں دیہات کے مقامی لیڈروں کے خلاف کارروائی کرنے والی ہے۔

باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کی خبر سنتے ہی ہزاروں کی تعداد میں مقامی آبادی اپنے علاقے چھوڑ کر کسی محفوظ مقام کی تلاش میں گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہی ہے۔

دوسری طرف ہفتے کو حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ انخلا کا حکم سرحدی حکام نے منسوخ کر دیا ہے۔ تاہم سرحدی حکام کا کہنا کہ چند دیہاتوں میں کارروائی کی جا رہی ہے۔

بدھ کے روز ایک تحریری حکم نامے میں گاؤں کے لیڈروں کو متنبہ کیا گیا تھا۔ یہ خط خبر رساں ایجنسی رائٹرز اور ایک وزیر کرنل من تھان نے دیکھا تھا۔ اس خط میں کہا گیا تھا کیانک تھان قصبے اور اس کے مضافات میں سرکش باغی چھپے ہوئے ہیں اور فوج ان کے خلاف کارروائی کرنے جا رہی ہے۔

اس خط سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اسے کس نے لکھا تھا، مگر راکھین صوبے کے سرحدی سلامتی کے وزیر من تھان نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ میانمار کی اس وزارت کی طرف سے آیا، جو فوج کے ماتحت کام کرتی ہے۔ اس خط میں اراکان آرمی کی طرف اشارہ تھا۔ روہنگیا باغی اس گروپ کے کرتا دھرتا ہیں۔

کرنل من تھان نے بتایا کہ اس کارروائی میں دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر نے اس حکم نامے کی غلط توضیح کی ہے۔ فوج کا ہدف مخصوص گروپ ہے اور صرف چند دیہاتوں میں یہ آپریشن کیا جائے گا۔

ہفتے کے روز سرکاری ترجمان نے بتایا کہ حکومت نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ اس کارروائی کو "کلیرنس آپریشن" نہ کہا جائے۔

اتوار کو اقوام متحدہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کیانک تھان قصبے میں جاری لڑائی پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور فریقین سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کا احترام کریں اور شہریوں کی زندگی بچانے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

میانمار میں برطانیہ، آسٹریلیا، امریکہ اور کینیڈا کے سفارت خانوں نے فوج کی جانب سے "کلیئرنس آپریشن" کی خبروں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس سے انسانی ہمدردی کے جاری کام متاثر ہوں گے۔

کیانک تھان قصبے اور اس کے نواحی علاقوں میں ہزاروں روہینگیا مسلمان آباد ہیں۔ ان علاقوں سے ان کے بھاگنے کی خبریں مختلف تنظیموں کی جانب سے آ رہی ہیں۔ جب کہ میانمار کی حکومت صحافیوں کو راکھین صوبے کے بہت سے علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ جس کی وجہ سے خبروں کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں۔