میانمار کے حکام نے بدھ کے روز روہنگیا پناہ گزینوں سے ملاقاتیں کیں جس کے بارے میں بنگلہ دیشی حکام کا کہنا تھا کہ یہ طویل عرصے سےغیر یقینی صورت حال میں گرفتار اس بے وطن اقلیت کو ان کے وطن واپس بھیجنے کی کوششوں کا دوبارہ آغاز ہے۔
بنگلہ دیش میں تقریباً 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزین رہ رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر پڑوسی ملک میانمار میں 2017 کے فوجی کریک ڈاؤن سے اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو کر وہاں گئے تھے ۔ اقوام متحدہ میانمار کے اس کریک ڈاؤن کو نسل کشی قرار دیتاہے اور اس کی تحقیقات کی جارہی ہے۔
دونوں ممالک نے سن 2017کے آخر میں ان کی واپسی کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے لیکن اس میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے، جس کے باعث مہاجرین کو مجبوراًکسمپرسی کی حالت میں امدادی کیمپوں میں پڑے رہنا پڑرہا ہے۔
بنگلہ دیش کے پناہ گزینوں کے امور سے متعلق ڈپٹی کمشنر شمس الضحی نے اے ایف پی کو بتایا کہ میانمار کی امیگریشن وزارت کے ایک سینئر اہل کار کی قیادت میں ایک 17 رکنی ٹیم بدھ کی صبح سرحدی شہر تیکناف پہنچی۔
کمیشن کے ایک اہل کار نے بتایا کہ وفد 700 سے زیادہ روہنگیا افراد کے انٹرویو کرے گااور یہ جائزہ لے گا کہ وہ میانمار واپسی کے اہل ہیں یا نہیں۔
وزارت خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ 2017 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ میانمار کی ٹیم روہنگیا پناہ گزینوں سے وطن واپسی کے لیے ذاتی طور پر انٹرویو کرنے آئی ہے۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش: روہنگیا کیمپ میں آتشزدگی سے ہزاروں افراد بے گھران کا کہنا تھا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی وطن واپسی مون سون سے پہلے شروع ہو جائے گی۔
اہل کار نے یہ بات زور دے کر کہی کہ کسی بھی روہنگیا شخص کو اس کی مرضی کے خلاف واپس نہیں بھیجا جائے گا۔
چین دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ وطن واپسی کے دباؤ پر ثالثی کر رہا ہے اور ڈھاکہ میں بیجنگ کے سفیر یاؤ وین نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ وطن واپسی کا عمل بہت جلد شروع ہو جائے گا۔
میانمار میں بیجنگ کے سفارت خانے نے اس ہفتے بتایا کہ چینی اور بنگلہ دیشی سفارت کار، مہاجرین کی واپسی کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے اس ماہ میانمار کے سرحدی علاقوں کے دورے پر گئے تھے۔
SEE ALSO: روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اب بھی جاری ہے: برمی روہنگیا تنظیموطن واپسی کے منصوبے پر 2017 میں اتفاق ہوا تھا لیکن بعد کے سالوں میں اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ بنیادی طور پر اس کی وجہ یہ خدشات تھے کہ اگر روہنگیا واپس میانمار چلے گئے تو وہ وہاں محفوظ نہیں رہیں گے۔
وبائی مرض کرونا وائرس کے دوران اور 2021 میں فوج کی طرف سے ، میانمار کی سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے پیش رفت مکمل طور پر رک گئی۔
2017 کے کریک ڈاؤن سے پہلے ،میانمار کی مغربی ریاست رکھائن، دنیا بھر کے روہنگیا باشندوں کا گھر تھا ۔یہاں میانمار کی فوجی حکومت اور باغی اراکان کے درمیان اکثر اوقات شورش جاری رہی۔
ایک روہنگیا خاتون ،عصمت آرا، ، جن کا میانمار کے وفد نے انٹرویو کرنا تھا، ان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ جگہ ان کے لیے محفوظ نہ ہو، وہ وہاں واپس جانے کو تیار نہیں ہیں۔
عصمت آرا ء کا کہنا تھا انہیں ہمارے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگااگر وہ ہماری جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری دیتے ہیں اور اگر ہمیں شہری تسلیم کیا جاتا ہے تو اسی صورت میں ہم میانمار جائیں گے۔
خبر کا کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے