''ہم اپنے بچوں کو ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے اسپتال لے کر بھاگتے رہے۔ سمجھ ہی میں نہیں آ رہا تھا کہ ہمارے بچوں کو کیا ہوا ہے۔ چار دن میں ہمارے تین بچے مر گئے اور ہم کچھ نہ کرسکے۔'' یہ کہنا ہے 65 سالہ میر حسن کا جن کے دو پوتے اور ایک پوتی مواچھ گوٹھ میں مبینہ طور پر زہریلی گیس کے اخراج کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے میر حسن کا کہنا تھا کہ وہ کئی دہائیوں سے مواچھ گوٹھ کے رہائشی ہیں۔ ان کا خاندان 27 افراد پر مشتمل ہے۔ 22 جنوری کو ان کی سات سالہ پوتی فرحانہ کی موت اس وقت ہوئی جب وہ اسے 21 جنوری کی شب انکل سریہ اسپتال میں داخل کرانے میں کامیاب ہوئےلیکن اگلے ہی روز وہ انتقال کرگئی۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی پوتی اور دو پوتے اچانک سے سانس کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وہ بار بار کھانستے تھے، کچھ گھنٹوں بعد انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور یہ بات ہمارے لیے تشویش کا سبب بنی۔ہم اپنے بچوں کو علاقے کے ایک نجی اسپتال لے گئے جہاں سے ہمیں یہ کہہ کر آگے بھیج دیا گیا کہ اس علاج میں پیسے لگیں گے جو ہم ادا نہیں کرسکتے تھے۔ہم غریب لوگ ہیں، میرا بیٹا مستری کا کام کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ان بچوں کو سول اور جناح اسپتال لے کر گئے وہاں ہمیں یہ کہا گیا کہ ہمارے پاس مشینیں خراب ہیں۔ ہم بچوں کو داخل نہیں کرسکتے۔ پھر بھاگ دوڑ کرکے ہم انہیں صدر کے قریب واقع انکل سریا اسپتال لے گئے جہاں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب تین بجے ہم نے پوتی کو داخل کرایا۔ لیکن اگلے ہی روز وہ وفات پا گئی جس کے بعد اگلے تین روز میں میرا پانچ سالہ پوتا نعیم اللہ اور پھر تین سالہ پوتا سمیع اللہ بھی انتقال کرگیا۔
میر حسن کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی دو سالہ پوتی رخسانہ اسپتال میں داخل ہے۔ اس کا بھی کچھ پتا نہیں کہ بچ سکے گی یا نہیں۔ہمارے گھر پر تو قیامت ٹوٹ گئی ہے۔ بچوں کی ماں ابھی تک صدمے میں ہے، اس نے اپنے تین بچے کھو دیے ہیں وہ کیسے ہوش میں آسکتی ہے۔
یہ صدمہ صرف میر حسن کا خاندان ہی نہیں سہ رہا بلکہ اس وقت مواچھ گوٹھ کے بہت سے گھرانے اپنے بچوں کی ناگہانی موت پر غمزدہ ہیں۔
کراچی میں مواچھ گوٹھ کا علاقہ ضلع کیماڑی کی حدود میں آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ علاقہ ڈیڑھ لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے۔ گوٹھوں پر مشتمل اس علاقے میں زیادہ تر مزدور طبقہ آباد ہے۔
ابتدائی طور پر اس علاقے سے کمسن بچوں کی ہلاکتوں کی خبر آئی جس کے بعد یہ تعداد حکام کے مطابق 18 تک پہنچ گئی ہے۔علاقہ مکینوں کا دعویٰ تھا کہ اس علاقے میں قائم فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں اور گیسز کے اخراج سے ان بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
واقعے کے بعد وزیرِاعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیماڑی میں مبینہ زہریلی گیس سے بچوں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اینڈ لیبر ڈپارٹمنٹ سے الگ الگ رپورٹ طلب کرلی۔
SEE ALSO: کراچی: حکام گیس لیکیج کی اصل وجوہات کا تعین کرنے میں ناکاموزیر اعلی سندھ کا کہنا تھا کہ یہ کون سی فیکٹریاں ہیں جن سے اس قسم کی گیس کا اخراج ہو رہا ہے جو انسانی جان کے لیے نقصان دہ ہے۔کیا کبھی ان فیکٹریز کاکوئی معائنہ ہوا ہے یا نہیں؟ وزیراعلیٰ نے لیبر ڈپارٹمنٹ کو ان فیکٹریوں سے خارج ہونے والی گیسز کے نمونوں کے لیب ٹیسٹ کرانے کی ہدایت بھی جاری کردیں۔
متاثرہ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ مرنے والے بچوں کی تعداد 19 تک پہنچ چکی ہے۔ 10 بچے اس وقت مختلف اسپتالوں میں داخل ہیں جب کہ 16 بچے بیماری کی حالت میں گھر میں ہیں۔
یونین کونسل مواچھ گوٹھ کے وائس چیئرمین عثمان غنی پرھیاڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ علاقے میں بچوں کی ہلاکتیں 10 سے 15 دن میں ہوئی ہیں۔
ان کے بقول بچوں کی عمریں دو سے 14 برس کے درمیان تھیں۔ابتدا میں لوگ یہ سمجھےکہ کوئی وبائی مرض ہے یا بچے خسرہ کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن جب ایک ہی علاقے سے بچوں کی اتنی بڑی تعداد بیمار ہوئی اور اموات سامنے آئیں تو اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔
عثمان حالیہ بلدیاتی انتخابات میں وائس چئیرمین منتخب ہوئے ہیں لیکن اسے قبل بھی وہ علاقے میں سماجی کاموں کے باعث جانے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں میں اس علاقے میں فیکٹریوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔اس وقت یہاں ایک سو سے زائد فیکٹریاں ہیں جو رہائشی علاقوں تک میں موجود ہیں۔ ان فیکٹریوں میں کالا پتھر، کرومائیٹ، پرانے ٹائر، پلاسٹک جلایا جاتا ہے جس کے سبب مضر صحت دھوئیں کا اخراج مسلسل رہتا ہےاور اس سے بچوں کے پھیپھڑے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دھوئیں کے اخراج اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر علاقہ مکین کئی بار احتجاج کرچکے ہیں۔ لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ البتہ اس مرتبہ اچانک ہی سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوا جس سے بچے براہ راست متاثر ہوئے۔
عثمان غنی کے مطابق اب جب اتنے بچوں کی ہلاکت ہوئی تو صوبائی حکومت نے ایکشن لیا اور اس علاقے کے رکنِ قومی اسمبلی قادر پٹیل نے بھی علاقے کا دورہ کیا اور محکمۂ صحت کے نمائندوں کو علاقے میں بھیجا تاکہ وہ علاقے میں موجود دیگر بچوں کے خون کے نمونے حاصل کرسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے نوٹس پر اسسٹنٹ کمشنر نے کچھ فیکٹریوں کو بھی سیل کیا ہے۔
میر حسن کے خاندان کے 12بچے اس وقت بھی بیمار ہیں۔ علاقے میں صوبائی حکومت کے احکامات پر آنے والے ڈاکٹروں کی ٹیموں سے وہ متاثرہ بچوں کا معائنہ کرارہے ہیں۔
ان کے بقول ہمارے بچے بالکل ٹھیک تھے بس اچانک ہی سب ہوا ۔ ایک بچہ اپنے ماں باپ کو کتنا عزیز ہوتا ہے وہ اچانک موت کے منہ میں چلا جائے تو آپ سوچیں اس خاندان پر کیا گزری ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اب کسی اور موت کا صدمہ نہیں اٹھا سکتے۔ ہم سب غریب لوگ ہیں لیکن ہمارے لیے سب کچھ ہماری اولاد ہی ہے۔ ہم اس وقت ان فیکٹریوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ہنستے کھیلتے بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہماری یہی درخواست ہے کہ حکومت کچھ کرے ورنہ اسی طرح ہمارے بچے مرتے رہیں گے اور ہم بے بسی سے دیکھتے رہیں گے۔