پاکستان میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری نے سیاسی منظرنامے میں ہلچل پیدا کردی ہے۔مبصرین سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کو انتقامی کارروائیوں کا تسلسل قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسے اقدامات سے جمہوریت اور سیاسی جماعتوں پر عوام کا اعتمادکم ہو رہا ہے۔
پاکستان میں حزبِ اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں ایک مرتبہ پھر اس میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اپریل 2022 میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کی اتحادی حکومت آنے کے بعد پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں کو مختلف مقدمات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ ان رہنماؤں میں شیریں مزاری، شہباز گل اور اعظم خان سواتی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں اس وقت کے قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف، سابق صدر آصف زرداری اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سیاسی مبصر ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اقدار معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو ہتھکڑیاں لگا کر ان کے چہرے پر کپڑا ڈالے بغیر قانون و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس انداز میں گرفتاریوں کا مقصد قانون کی عمل داری نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں کی عوامی سطح پر تضحیک معلوم ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک آئینی ادارے کی جانب سے شکایت پر فواد چوہدری کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے بقول ماضی میں بھی افواج کے خلاف بات کرنے پر سیاسی رہنما گرفتار ہوتے رہے ہیں لیکن ان کے خیال میں الیکشن کمیشن کے خلاف بیان دینے پر گرفتاری کی یہ پہلی مثال ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیرِاطلاعات اور پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن کے چیف اور ممبران کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کے مقدمے میں اسلام آباد پولیس نے لاہور کی حدود سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد انہیں اسلام آباد منتقل کرکے دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔
ظفر اللہ خان نے کہا کہ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور دیگر حکومتی رہنما بھی ماضی میں اسی قسم کے رویے کا شکار رہے ہیں لیکن کوئی اس سے سبق سیکھنےاور یہ طرزِ عمل دہرانے سے روکنے کے لیےاپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
سیاسی امور کے تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اورجس طرح ماضی میں سیاسی مخالفین پر مقدمات بنائے جاتے تھے آج بھی ویسے ہی گرفتاریاں کی جارہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ سیاسی انتقام کے رویے سے جمہوریت کمزور ہورہی ہے اور سیاست تنزلی کا شکار ہے۔
ان کے بقول رہنماؤں کے رویے معاشرے پر بہت اثرات رکھتے ہیں۔سیاسی رہنماؤں کے لہجے میں تلخی سے معاشرے میں مجموعی طور پر عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔
البتہ حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری کی گرفتاری سیاسی انتقامی کارروائی نہیں بلکہ ایک ادارے کی شکایت پر یہ اقدام کیا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات مریم اونگزیب کے بقول سیاسی بنیاد پر گرفتار کرنا ہوتا تو عمران خان کو گرفتار کیا جاتا۔
ظفر اللہ خان کے مطابق سیاسی انتقام کے ان اقدامات سے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے کیوں کہ ان کے ساتھ وابستہ افراد ہر عمل کو جماعت کے نکتۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس سارے عمل سے انصاف کے پیمانے ضرور کمزور ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس عمل سے اگرچہ سیاسی جماعتوں کو زیادہ فرق نہیں پڑا لیکن عوام سیاست اور جمہوریت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کےعوام پہلے بھی جمہوریت میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں رائے شماری کی شرح کبھی پچاس فی صد سے زیادہ نہیں رہی۔
ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ یہ رویہ عوام کو اس نظام کے بارے میں مزید سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ فواد چوہدری کی گرفتاری جیسے معاملے پر احتجاج، پریس کانفرنسز اور پارلیمان میں بحث ہوتی ہے۔ لیکن عوام کے اصل مسائل پر اس قسم کا اظہار دکھائی نہیں دیتا۔
ان کے بقول سیاسی انتقام پر صرف ہونے والی یہ توانائیاں سیاست کو بہتر کرنے اور عوامی مسائل کے حل پر صرف ہوں تو ملک کے حالات بھی بہتر ہو جائیں اور عوام کا جمہوریت پر اعتماد بھی بڑھے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے غلطیوں کے اعتراف کی صرف ایک مثال میثاق جمہوریت ہے۔لیکن میثاقِ جمہوریت صرف ایک دستاویز سے آگے نہ بڑھ سکا اور سیاسی جماعتوں نے اس پر عمل نہیں کیا بلکہ اس پر دستخط کرنے والوں نے کئی مواقع پر خود اس کی خلاف ورزی کی۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری کو غیر قانونی اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے ایک بیان میں اس اقدام کو سیاسی انتقام اور اختیارات کے غلط استعمال کی بہترین مثال قرار دیا ہے۔