غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ کا بل منظور، بلوچستان کے بعض اراکین کی مخالفت

پاکستان کی قومی اسمبلی نے بیرون ممالک سے آنے والے سرمایہ کاروں کی سہولت اور تحفظ کے لیے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی مخالفت کے باوجود فارن انویسٹمنٹ پروموشن و پروٹیکشن بل منظور کرلیا ہے۔

سینیٹ نے اس بل کو پہلے ہی پاس کردیا تھا جس کے بعد اب صدرِ مملکت عارف علوی نے بھی اس پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد یہ قانون بن گیا ہے۔

یہ بل اگرچہ بیرون ملک سرمایہ کاروں کے تحفظ کے لیے منظورکیا گیا لیکن اس قانون کی منظوری کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اسے بلوچستان کے علاقے چاغی میں ریکوڈک منصوبہ کی خاطر منظور کیا گیا جس کے معاہدے پر عمل درآمد کی شرائط میں قانون سازی کی شرط رکھی گئی تھی۔

وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سردار اختر مینگل ،وفاقی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس مولانا عبدالواسع اور مولانا عبدالاکبر چترالی کی مخالفت کے باوجود اسے ایوان میں پیش کیا۔ حکومتی اراکین کی طرف سے اپنے اتحادیوں کو اس بل پر راضی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کئی گھنٹوں کی کوشش کے باوجود اتحادی ارا کین راضی نہ ہوئے۔

منظور شدہ بل میں کیا ہے؟

وائس آف امریکہ کے پاس دستیاب اس بل کی کاپی کے مطابق ریکوڈک منصوبے سمیت 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والی ہر کمپنی کو تحفظ حاصل ہوگا۔

منظور شدہ بل کے ذریعے غیرملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکسز، ٹرانسفر میں ریلیف ملے گا جب کہ سرمایہ کاروں کو بینک ٹرانزیکشن میں سیکرسی حاصل ہو گی جس کے مطابق ان کی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ کسی کو نہیں دیا جاسکے گا۔

بل کے تحت اکاؤنٹ کو کسی ٹیکس اتھارٹی کی جانب سے انکوائری اور ایکشن سے تحفظ حاصل ہوگا، اکاؤنٹس کو ویلتھ ٹیکس، انکم ٹیکس اور زکوٰۃ سے بھی استثناٰ حاصل ہوگا۔

بل کے مطابق ریکوڈک منصوبے کی پیداوار کے آغاز سے 15 سال تک انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔15 سال کے بعد انکم ٹیکس ایک فی صد ہوگا۔ ریکوڈک منصوبے کی پیداوار کے 15 سال مکمل ہونے کے بعد بھی 20 فی صد سے زائد ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں لگایا جاسکے گا۔ انکم ٹیکس سے متعلق معاہدہ 30 سال کے لیے ہو گا۔

SEE ALSO: سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دے دیا


تیسرے شیڈول کے مطابق ریکوڈک منصوبے سے متعلق سرمایہ کاروں کو پاکستان کے اندر اور باہر ملکی و غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کھولنے اور آپریٹ کرنے کی اجازت ہو گی۔بل کے تحت اسٹیٹ بینک سمیت کوئی مالیاتی ادارہ بینک سے پیسے نکلوانے اور جمع کرانے پر پابندی عائد نہیں کرے گا۔

بل کے مطابق سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی کو بیرون ملک سے مشینری اور دیگر سامان پاکستان امپورٹ کرنے پر کسی قسم کی ڈیوٹی ادا نہیں کرنی ہوگی جب کہ اس کی برآمدات پر بھی کوئی ڈیوٹی عائد نہیں کی جائے گی۔ اس کمپنی کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے بھی استثناٰ حاصل ہوگا۔

سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی کو پراپرٹی ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا ہوگا جب کہ وفاقی یا صوبائی حکومت کی طرف سے عائد کردہ سٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس سے بھی استثناٰ ہوگا۔سرمایہ کار کمپنی کے لیے وفاقی یا صوبائی لیبر لاز اور سوشل ویلفیئر قوانین بھی نافذ نہیں ہوں گے۔

سرمایہ کاری محتسب سرمایہ کار کی طرف سے اس بل کی خلاف ورزی سمیت کسی شکایت کی صورت میں 120 دن کے اندر کارروائی کرے گا۔ محتسب کو کسی بھی سرکاری ملازم کو طلب کرنے کا اختیار ہوگا 120 دن کے اندر محتسب کی طرف سے اس کی شکایت یا درخواست کا فیصلہ نہ ہونے پر سرمایہ کار کوئی بھی قانونی کارروائی کرنے کا مجاز ہوگا۔

اس بل کے منظور ہونے کے ایک دن بعد ہی وفاقی حکومت نے ریکوڈک مائننگ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کے تمام اثاثہ جات کو کیپٹل ویلیو ٹیکس سے چھوٹ دے دی ہے۔

حکومت کے اتحادی مخالف

بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل نے اس بل کے حوالے سے شدید اعتراض کیا اور اس کی بھرپور مخالفت کی، قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ یہ بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں نے کبھی صوبے کے مسائل کو نہیں سمجھا ۔

اُن کے بقول ملک کے قیام سے لے کر اب تک کسی بھی حکومت نے صوبہ بلوچستان کو ملک کا حصہ نہیں سمجھا اور اس کے وسائل کو مال غنیمت ہی سمجھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک برتا گیا ۔ ہمارے نوجوانوں کو اٹھایا جا رہا ہے اور ہمارے قدرتی وسائل کا فیصلہ کہیں اور کیا جاتا ہے جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

اختر مینگل نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کے تحت بلوچستان کو ایک بھی سڑک نہیں دی گئی۔


اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان پہلے ہی جل رہا ہے اور ایسی قانون سازی کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوش کیا جا سکتا ہے لیکن عوام کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے جو تباہ کن ہوگا۔

حکومتی وزیر مولانا واسع نے کہا کہ وہ وفاقی وزیر ہونے کے باوجود اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں کیوں کہ یہ ان لوگوں خصوصاً پیپلز پارٹی کے لیے بڑا دھچکا ہے جو صوبائی خودمختاری کا دعویٰ کرتے ہیں۔

بل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

یہ بل حکومت اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے بعد منظور کیا گیا ہے جس میں کمپنی نے پاکستان حکومت کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان سے اس معاہدہ کے حوالے سے مثبت رائے حاصل کرنے اور ایسی قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا جس کے مطابق ان کو مالیاتی طور پر آزاد رکھا جاسکے۔

اس معاہدے کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے اپنی رائے دے دی تھی جس میں ریکوڈک معاہدہ کو قانونی قرار دیا گیا تھا۔

حکومت نے اب سرمایہ کاری کے تحفظ کا بل بھی منظور کرلیا ہے جس کی صدر مملکت کی طرف سے منظوری کے بعد اب یہ قانون بننے جارہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ٹیتھیان کاپر کمپنی کی طرف سے ریکوڈک منصوبہ پر کام شروع کرنے کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔