|
ناسا کاایک خلائی جہاز مشتری اور اس سیارے کے چاند یوروپا کے سفر کے لیے روانہ ہو گیا ہے ۔ اس مشن کو زمین سے باہر زندگی کی تلاش کی ایک بہترین مہم کہا جارہا ہے ۔
"یوروپا کلپر" نامی یہ خلائی جہا ز مشتری کے چاند کی برفیلی پرت کی نچلی سطح کا جائزہ لے گا جہاں خیال ہے کہ سطح کے کافی قریب ایک سمندر موجود ہے ۔ یہ تحقیقی مشن وہاں زندگی کا پتہ نہیں چلائے گا بلکہ یہ تعین کرے گا کہ آیا وہاں ایسے حالات ہیں جو زندگی کے لیے ماحول موافق بنا سکتے ہیں ۔ وہاں چھپے ہوئے کسی "مائیکروآرگنزم " کو باہر نکالنے کے لیے ایک اور مشن کی ضرورت ہوگی ۔
اس پروگرام سائنسدان کرٹ نیبر نے کہا ہے کہ، "یہ ہمارے لیے ایک ایسی دنیا کو تلاش کرنے کا موقع ہے جو شاید اربوں سال پہلے رہنے کے قابل تھی، لیکن ایک ایسی دنیا کو کو تلاش کرنے کا بھی ایک موقع ہے جو ہو سکتا ہے کہ آج بھی رہنے کے قابل ہو ۔"
کلپر اپنے ان بڑے بڑے سولر پینلز کی وجہ سے ناسا کی جانب سے کسی دوسرے سیارے کی تحقیقا ت کے لیے بنایا گیا سب سے بڑا خلائی جہاز بن گیا ہے ۔ اسے مشتری تک پہنچنے میں ساڑھے پانچ سال لگیں گے اور وہ یوروپا کی سطح کے 16 میل (25 کلومیٹر) کے علاقے کے اندر اندر تحقیق کرے گا-
یہ جہاز ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے اسپیس ایکس کے فالکن ہیوی راکٹ کے ذریعے روانہ ہوا ہے۔ اس مشن پر پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر خرچ ہوں گے ۔
یوروپا، مشتری کے کئی چاندوں میں سپر اسٹار ہے
یوروپا جو مشتری کے 95 معلوم چاندوں میں سے ایک ہے ، تقریباً ہمارے اپنے چاند کے سائز کا ہے۔ یہ برف کی ایک تہہ میں بند ہے جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ اس کی موٹائی 10 میل سے 15 میل یا اس سے زیادہ (15 کلومیٹر سے 24 کلومیٹر) ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس برفیلی پرت میں ایک سمندر چھپا ہوا ہے جو 80 میل (120 کلومیٹر) یا اس سے زیادہ گہرا ہو سکتا ہے۔
ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے کچھ ایسے آثار کی نشاندہی کی ہے جو بظاہر سطح سے پھوٹنے والے گرم پانی کے چشمےدکھائی دیتے ہیں ۔ یوروپا جسے گیلیلیو نے 1610 میں دریافت کیا تھا ، مشتری کے گیلیلین نامی چار چاندوں میں سے ایک ہے۔ باقی تین چاندوں کے نام گینی میڈ، آئی او اور کالسٹو ہیں ۔
یوروپا چاند میں زندگی کس قسم کی ہو سکتی ہے ؟
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زندگی کے لیے پانی کے علاوہ "اورگینک کمپاؤنڈز" یعنی نامیاتی مرکبات کے ساتھ ساتھ توانائی کے کسی زریعے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یوروپا کے معاملے میں یہ سمندر کے فرش کے شگافوں سے پھوٹنے والے گرم پانی کے چشمے ہوسکتے ہیں۔
ڈپٹی پراجیکٹ سائنسدان بونی براتی کاخیال ہے کہ وہاں کوئی بھی زندگی اس قدیم "بیکٹیریل لائف" کی طرح ہوگی جیسی کہ زمین کے گہرے سمندری شگافوں میں پیدا ہوئی تھی ۔
بونی کہتی ہیں کہ "ہم اس مشن سے اس بات کا پتہ نہیں چلاسکیں گے کیونکہ ہم اتنی زیادہ گہرائی کو نہیں دیکھ سکتے۔"
انہوں نے کہا۔ کلیپر کا واحد کام یہ متعین کرنا ہے کہ آیا چاند اپنے سمندر میں یا ممکنہ طور پر برف میں پانی کے کسی مقام پر زندگی کو سپورٹ کر سکتا ہے ۔ جب کہ مریخ کے مشن میں یہ متعین کرنے کی کوشش شامل ہے کہ آیا وہ جگہ زندگی کے لیے قابل رہائش ہو سکتی ہے یا ہو سکتی تھی ۔
SEE ALSO: مریخ کی گہرائی میں پانی کے وسیع ذخائر کا امکانسپر سائز کا خلائی جہاز
کلپرکے شمسی پنکھوں اور انٹینا کو کھولا جائے تو اس کا سائز ایک باسکٹ بال کے میدان کے برابر ہوتا ہے — ایک سرے سے دوسرے سرے تک 100 فٹ (30 میٹر) سے زیادہ — اور اس کا وزن تقریباً 13 ہزار پاؤنڈ (6,000 کلوگرام) ہے۔ مشتری کے سورج سے فاصلے کی وجہ سے بڑے سائز کے سولر پینلز کی ضرورت ہے۔
اس کا مرکزی حصہ جو تقریباً ایک کیمپر کے سائز کا ہے ، سائنس کے نوآلات سے بھرا ہے جن میں برف میں گھسنے والے ریڈار ، پورے چاند کا عملی طور پر نقشہ بنانے والے کیمرے ، یوروپا کی سطح اور کمزور حصوں سے مواد کو نکالنے والے آلات شامل ہیں ۔
کلپر کا یہ نام کئی صدی پرانے تیز رفتار بحری جہازوں کے نام پر رکھا گیا ہے ۔
مشتری کے سفر کا دورانیہ
مشتری کا چکر لگانے کا سفر 1.8 ارب میل (3 ارب کلومیٹر) پر محیط ہوگا۔ یہ 2030 میں مشتری پر پہنچے گا اور اگلے سال سائنس کا کام شروع کرے گا۔
یہ مشن 2034 میں ایک منصوبے کے مطابق مشتری کے اور سولر سسٹم کے سب سے بڑے چاند گینی میڈ میں ایک کریش کے ساتھ ختم ہوگا۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔