پچاس سال کے تعطل کے بعد امریکی خلائی ادارہ ناسا ایک بار پھر چاند پر اپنی سائنسی مہمات شروع کرنے کے لیے تیار ہے اور اس نے اپالو مشن کے بعد اپنا نیا اور زیادہ طاقت ور راکٹ آرٹمس ون لانچنگ پیڈ پر پہنچا دیا ہے۔ چاند کے لیے نئی آزمائشی پرواز 29 اگست کو روانہ ہو رہی ہے۔
پچھلی صدی میں چاند کی تسخیر کے اپالو مشن کی وجہ زمین کے مدار سے باہر سائنسی تحقیق سے زیادہ قومی وقار کا معاملہ تھا اور امریکہ خلائی مہمات میں روس پر سبقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سرد جنگ کے اس دور میں خلائی مہمات کو قوم کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور یہ دوڑ جیتنے کے لیے امریکی حکومت نے کثیر سرمایہ صرف کیا۔ جب چاند کا اپالو مشن ختم کیا گیا، تو اس وقت تک چاند کے دوروں کے لیے امریکہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکا تھا اور خلا میں روس پر برتری کی خواہش بھی پوری ہو چکی تھی۔
پچاس سال کے بعد ایک بار پھر چاند کے توجہ کا مرکز بننے کی وجوہات ماضی سے مختلف ہیں۔ سائنس دان کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ، جسے گلوبل وارمنگ کا نام دیا جاتا ہے، متفکر ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر یہ صورتِ حال برقرار رہی تو اگلی صدی کے آغاز تک زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔
ایک جانب جہاں گلوبل وارمنگ کی صورتِ حال کو پلٹنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو وہاں دوسری جانب سائنس دانوں کی نظریں ایک بار پھر خلا پر مرکوز ہو گئی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کوئی ایسا سیارہ تلاش کیا جائے جہاں کا ماحول اور حالات انسانی زندگی کے لیے سازگار ہوں اور وہاں انسانی بستیاں بسائی جا سکیں۔ یہ ایک مشکل ہدف ہے جس کے لیے بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے۔
اس سفر میں چاند انسان کی منزل نہیں بلکہ ایک پڑاؤ ہے۔ اس بے آب و گیاہ اور ویران سیارچے کو عارضی پڑاؤ بنانے کے لیے اس کے بارے میں ابھی بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔ اس لیے خلائی سانئس دان اپنا سفر وہیں سے شروع کر رہے ہیں جہاں پچاس برس قبل انہوں نے ادھورا چھوڑ دیا تھا۔
ناسا کا نیا راکٹ آرٹمس نصف صدی قبل کے اپالو کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑا، طاقت ور اور زیادہ بہتر اور ترقی یافتہ آلات سے آراستہ ہے۔ اس کی اونچائی 322 فٹ ہے۔ اور یہ خلائی شٹل کی طرح کام کرتا ہے۔
اس راکٹ کو اپنے ہینگر سے لانچنگ پیڈ تک پہنچانے کے لیے 10 گھنٹوں سے زیادہ وقت لگا جب کہ یہ فاصلہ محض چار میل کا تھا۔
خلا بازوں کو لے جانے والے ہر راکٹ کی طرح اس راکٹ میں بھی ایک خلائی کیپسول نصب ہے۔ لیکن 29 اگست کی آزمائشی پرواز میں کوئی خلاباز اس کیپسول میں نہیں ہو گا۔ یہ راکٹ تقریباً 26 سے 42 روز تک چاند کے مدار میں گردش کرنے کے بعد زمین پر لوٹ آئے گا۔ اس کے بعد کی پروازوں میں خلابازوں کو بھی چاند پر بھیجا جائے گا جو وہاں اہم نوعیت کے سائنسی تجربات کریں گے۔
SEE ALSO: چاند کی مٹی میں پودے اگانے کاکامیاب تجربہ، اگلی منزل چاند کی سطح ہےناسا اپنی نئی خلائی مہم کے لیے جو راکٹ استعمال کر رہا ہے، اسے آرٹمس کا نام دیا گیا ہے۔ پہلی آزمائشی پرواز کو آرٹمس ون کہا گیا ہے۔ دوسری پرواز 2024 میں متوقع ہے جس پر خلاباز بھی سوار ہوں گے، لیکن وہ چاند کے مدار میں گردش کرنے کے بعد زمین پر واپس آ جائیں گے۔ اگر یہ پروازیں طے شدہ پروگرام کے مطابق کامیاب رہیں تو پھر 2025 میں چاند پر بھیجے جانے والے آرٹمس تھری کے خلاباز چاند کی سطح پر اپنے قدم رکھیں گے۔ یہ 1972 میں اپالو 17 کے چاند مشن کے بعد ناسا کے خلا بازوں کی زمین کے قریب ترین سیارے پر پہلی لینڈنگ ہو گی۔
ناسا اپنے آرٹمس مشن سے بلند توقعات رکھے ہوئے ہے اور آنے والے برسوں میں آرٹمس پروازوں کے دائرے کو مریخ تک وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ناسا کے راکٹ پروگرام مینیجر جان ہنی کٹ نے کہا ہے کہ 1972 کے بعد ہم ایک ایسا راکٹ لانچ کرنے جا رہے ہیں جسے خلا کی وسعتوں میں جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
چاند کی تسخیر کا سفر 1969 میں اپالو گیارہ کی چاند پر لینڈنگ اور نیل آرمسٹرانگ کے چاند کی سطح پر قدم رکھنے سے شروع ہوا جو چاند پر پہلے انسانی قدم تھے۔ 1972کا اپالو مشن ناسا کے چھ خلابازوں کے چاند پر اترنے کے ساتھ ختم ہو گیا۔ اس پورے مشن کے دوران 24 خلابازوں نے چاند تک کا سفر کیا جن میں سے 12 کو چاند کی سطح کے مختلف مقامات پر اترنے کا موقع ملا۔
امریکہ کے علاوہ روس اور چین بھی اپنے خلاباز چاند پر اتار چکے ہیں۔
اپالو 17 کے مشن میں کئی ریکارڈ قائم ہوئے۔ 1972 کی یہ آخری خلائی مہم 7 سے 19 دسمبر تک 12 دن جاری رہی جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس دوران چاند کی سطح پر طویل ترین انسانی چہل قدمی ہوئی اور خلا باز چاند سے مٹی اور چٹانوں کے بھاری مقدار میں نمونے زمیں پر لائے۔ ان کا یہ ریکارڈ بھی ابھی تک قائم ہے۔
آرٹمس ون کو پرواز کے لیے تیسری بار کینیڈی اسپیس سینٹر کے لانچنگ پیڈ پر لایا گیا ہے۔ پہلی بار اپریل میں جب اسے لانچنگ پیڈ پر لایا گیا تو جانچ پڑتال کے دوران ایندھن لیک ہونے سمیت کئی دوسری خرابیوں کی نشاندہی ہوئی۔ جس کے بعد اسے مرمت کے لیے واپس ہینگر میں بھیج دیا گیا۔
دوسری بار آرٹمس کو جون میں لانچنگ پیڈ پر استادہ کیا گیا اور آلات اور سسٹمز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد ایک بار اسے پھر ہینگر بھیجنا پڑا۔ اب تمام نقائص دور کرنے کے بعد اسے 17 اگست کو ایک بار پھر لانچنگ پیڈ پر کھڑا کیا گیا ہے اور 29 اگست کی پرواز کے لیے اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا ہے۔ ناسا نے موسم اور دیگر غیر متوقع حالات کے پیش نظر پرواز کی متبادل تاریخیں بھی مقرر کر دیں ہیں۔