|
آئى ایم ایف کے پاکستان کے لیے مشن چیف نیتھن پورٹر نے صحافیو ں سے بات کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان کو نئے قرض پروگرام میں اپنی ٹیکس جمع کرنے کی شرح میں تین فیصد کا اضافہ کرنا ہو گا۔
پاکستا ن کی موجودہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح، یعنی پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں ٹیکس جمع کر نے کی شرح، ایف بی آر کے اعدادو شمار کے مطابق، مالی سال دوہزار چوبیس میں نو فیصد رہی۔
مشن چیف کا کہنا تھا کہ زراعت اور ریٹیلرز پر ٹیکس لگائے بغیر ملک میں انصاف پر مبنی ٹیکس کا نظام نافذ نہیں ہو سکتا ۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 2024-2023 میں اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مسلسل پالیسی پر عمل درآمد کیا۔ اس پالیسی کے ذریعے اقتصادی استحکام کے لیے اہم اقدامات کیے گئے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ؛ کیا پاکستان میں منی بجٹ آ سکتا ہے؟آئی ایم ایف کے مطابق مالی سال 2024 میں شرح نمو 2.4 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجہ زرعی شعبے میں سرگرمیاں ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی میں نمایاں کمی ہوئی ہے جو کہ سنگل ڈیجٹ تک آگئی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کے مطابق، پاکستان کو زراعت کے شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے صوبوں میں ٹیکس اصلاحات لانی ہونگی اور صوبائى قوانین کو وفاقی قوانین سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔
جس کے لیے صوبوں کو اکتوبر کے اختتام تک تک یہ قوانین منظور کروانے کے بعد، اگلے سال کے آغاز سے زرعی شعبے سے ٹیکس جمع کرنے کا آغاز ہو گا۔
نئے آئى ایم پروگرا م کی منظوری کے حوالے سے، پاکستان کی بیرونی فائنانسنگ کے سوال پر نیتھن پورٹر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے لیے بارہ ارب ڈالر کے بیرونی مالی اعانت میں بڑا حصہ چین ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ہے۔
تاہم مشن چیف نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کس ملک نے پاکستان کے لیے کتنی رقم کی یقین دہانی کرائى ہے۔
پاکستان کیا کہتا ہے؟
پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے لیے نئے قرض پروگرام کی منظوری میں امریکہ کی مدد کو سراہا اور کہا کہ چین کے تعاون سے ہی پروگرام کا حصول ممکن ہوسکا ہے۔
وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں وزیرِ خزانہ اورنگ زیب نے کہاکہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے حصول میں دوست ممالک نے مالیاتی ضرورت کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
آئی ایم ایف نے بدھ کو نیویارک میں ہونے والے اپنے بورڈ اجلاس میں پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر قرض پروگرام کی منظوری دی ہے۔ یہ قرض پروگرام 37 ماہ پر مشتمل ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر ہم چاہتے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ثابت ہو تو اس کے لیے ملکی معیشت میں بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ جب بھی ملک کی مجموعی ترقی چار فی صد سے اوپر جاتی ہے تو ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں چلا جاتا ہے۔ ملک کی معیشت کو برآمدی معیشت میں تبدیل کرنے کے لیے معاشی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانا ضروری ہیں جس کے بعد ہی ملک کو آئندہ تین سال میں آگے لے کر جاسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اب معاشی اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے لیے ٹیکس نیٹ سے باہر موجود شعبوں کو دائرۂ کار میں لانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ طبقے پر جو اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا اسے کم کیا جائے گا اور ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔
ٹیکس نہ دینے والوں پر پابندیاں
محمد اورنگزیب کہتے ہیں کہ گزشتہ برس محصولات میں 29 فی صد اضافے کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9 فی صد رہی ہے جو کہ کسی بھی ملک کی معیشت کو استحکام نہیں دلا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اب نان فائلر کی اصطلاح ختم کرنے جارہی ہے اور ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس لوگوں کے طرزِ زندگی کا ڈیٹا موجود ہے، کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں، کتنے بیرونِ ممالک سفر کیے اور دیگر اخراجات کیا ہیں، جسے دیکھتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو حراست میں لیے بغیر انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔
پاکستان کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین کے قرضوں کے حوالے سے آئى ایم ایف کی کچھ مخصوص شرائط تھیں۔لیکن آئى ایم ایف کے پاکستان کے لیے مشن چیف کا اس پر کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے کی ایسی کوئى مخصوص شرائط نہیں تھیں۔