پاکستان کی قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم منظور کی ہیں جس سے تحریکِ انصاف کی گزشتہ حکومت کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق اور عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی ترامیم ختم ہو گئی ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے 1999 کے آرڈیننس میں مزید ترمیم کا بل بھی کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں شروع ہوا۔ مقامی میڈیا کے مطابق وزیرِ پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے الیکشن اصلاحات کا بل ایوان میں پیش کیا۔انتخابات کے حوالے سے 2017 کے ایکٹ کے سیکشن 94 اور سیکشن 103 میں ترامیم کی گئی ہیں۔
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی گزشتہ حکومت میں کی گئی ترامیم کو واپس لیا گیا ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات سے متعلق ترمیمی بل کثرتِ رائے سے منظور کیا گیا تھا۔
انتخابی ترمیمی بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے حق کی منظوری دی گئی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر دیا تھا۔
نئے ترمیمی بل میں کیا ہے؟
رپورٹس کے مطابق جمعرات کو الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایوان میں الگ نشستیں مخصوص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جب کہ ان نشستوں کے تعین کا معاملہ ایوان کی پارلیمانی کمیٹی دیکھے گی۔ وہ اوورسیز پاکستانی جو ملک میں موجود ہیں وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے منحرف رکن نور عالم خان نے رواں ماہ 10 مئی کو یہ بل پیش کیا تھا۔انہوں نے پرائیوٹ ممبر ڈے پر یہ بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوہری شہریت رکھنے والے شہریوں کو ووٹ کا حق نہیں دینا چاہیے البتہ وہ پاکستانی جو ورک پرمٹ پر دیگر ممالک میں ہیں ان کو انتخابات میں ووٹ کا حق دینا چاہیے۔
جمعرات کو اجلاس میں وزیرِ قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کے بل پر ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات پر الیکشن کمیشن نے اعتراضات اٹھائے تھے اور اب اس سے متعلق بل میں ترمیم کی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے ایوان میں ایک نیا بل بھی پیش کیا گیا ہے جس پر بحث شروع کر دی گئی ہے۔نئے بل میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات میں الیکٹرانک مشین کے استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے لیے پائلٹ پراجیکٹ تیار کرے۔
نیب کے حوالے سے بھی ترمیمی بل منظور
وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے 1999 کے آرڈیننس میں مزید ترمیم کا بل بھی کثرتِ رائے سے منظور کر لیاگیا۔
اس بل کے حوالے سے وفاقی وزیرِ قانون نے ایوان کو آگاہ کیا کہ نیب اب حراست میں لیے گئے کسی بھی شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی ملزم کے خلاف ریفرنس یا کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی اس کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ نیب کو گرفتاری سے قبل ثبوت کی دستیابی یقینی بنانا ہو گی۔
مقامی میڈیا کے مطابق نئے قانون کے تحت اب نیب کو پابند کر دیا گیا ہے کہ جب بھی کسی ملزم کے خلاف ریفرنس بنایا جائے گا اس کیس کی تحقیقات کا آغاز چھ ماہ کے اندر کر دیا جائے گا۔
منظور کیے گئے بل میں ملزم کے اپیل کے حق کے لیے مدت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پہلے ملزم کسی بھی کیس میں 10 دن میں اپیل دائر کر سکتا تھا جب کہ اب اس کو 30 دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اب کوئی بھی ملزم اپنے خلاف دائر کیس پر ایک ماہ میں اپیل دائر کر سکے گا۔
منظور کیے گئے بل میں نیب پر پابندی لگائی گئی ہے کہ کسی بھی ملزم کے خلاف ریفرنس دائر کیے جانے تک کوئی سرکاری افسر ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کرے گا۔
چیئرمین نیب کے تقرر کے طریقۂ کار کا تعین
اس ترمیم کے ذریعے گزشتہ حکومت کی ترمیم کو، جس کے تحت نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک پرانے چیئرمین فرائض انجام دیں گے، ختم کردیا ہے۔
ترمیم کے تحت چیئرمین نیب کی مدت میعاد مکمل ہونے پر نئے چیئرمین نیب کی تقرری عمل میں نہ آنے کی صورت میں ڈپٹی چیئرمین نیب قائم مقام سربراہ کے فرائض انجام دیں گے۔
اس بل کے تحت وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
بل کے متن کے مطابق کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بے قاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی، جب کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔
بل کی دستیاب کاپی کے مطابق صدرِ پاکستان نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل دو ماہ پہلے شروع کریں گے اور وزیرِاعظم اور قائد حزبِ اختلاف کے درمیان 40 دن میں یہ عمل مکمل نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا۔
پارلیمانی کمیٹی 30 دن میں وزیرِاعظم اور قائدِ حزب اختلاف کی طرف سے بھجوائے گئے ناموں میں سے کسی پر اتفاق کرے گی۔
بل کے متن کے مطابق چیئرمین نیب کی تین سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔
اسی طرح ڈپٹی چیئرمین کے تقرر کا اختیار صدر سے لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا جائے گا۔
احتساب عدالت میں جج کا تقرر
بل میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی تین سال کے لیے ہو گی جب کہ احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہو گی۔
احتساب عدالتیں کرپشن کیسز کا فیصلہ ایک سال میں کریں گی۔
نیب قانون میں ترمیم کرکے ریمانڈ 90 دن سے کم کرکے 14 دن کر دیا گیا ہے۔ کسی کے خلاف کیس جھوٹا ثابت ہونے پر ذمہ دار شخص کو 5 سال تک قید کی سزا ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
تحریکِ انصاف کا ردِعمل
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نےقومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بل کی منظوری پر تنقید کی ہے۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف نے بیرونِ ملک مقیم 90 لاکھ پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا جس کو آج ختم کر دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک بیان میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
بیان میں انہوں نے قومی اسمبلی سے ان بلوں کی منظوری کو قابلِ مذمت قرار دیا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین طارق ملک بھی واضح کر چکے ہیں کہ اگر ذمہ داری دی گئی تو سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے لیے نادرا ای ووٹنگ کا سسٹم تیار کرے گا تاہم اس کا استعمال اور انتظام الیکشن کمیشن کے پاس ہو گا۔
کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ای ووٹنگ کے نظام کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن باقاعدہ طور پر نادرا کو یہ ذمہ داری سونپے اور سیاسی جماعتوں کا اس نظام پر اتفاقِ رائے ہو۔ اگر نادرا کو ای ووٹنگ سے متعلق نظام بنانے کا کہا جاتا ہے تو وہ ایک یا ڈیڑھ سال میں سسٹم (سافٹ ویئر) بنا کر الیکشن کمیشن کے حوالے کر سکتا ہے۔