رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ؛ ’گلو بٹ‘ سوشل میڈیا پر کیا کر رہا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حقیقی آزادی مارچ میں جہاں ایک جانب ملک کے کئی علاقوں میں پولیس اور سیاسی کارکنان آمنے سامنے ہیں تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے کئی ٹرینڈزموجود ہیں۔

سوشل میڈیا پر موجود ان ٹرینڈز میں گلو بٹ کا ٹرینڈ بھی ہے۔ اس ٹرینڈ میں پی ٹی آئی کے حامی مختلف ویڈیوز اور تصاویر شیئر کر رہے ہیں جن میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر تشدد اور گاڑیاں توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کی شیئر کی جانے والی وائرل ویڈیوز میں سب سے زیادہ یاسمین راشد کی ویڈیو پر تبصرے ہو رہے ہیں۔

تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لاہور کی شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک سفید گاڑی آئی تو پولیس اہل کاروں کی ایک بڑی تعداد نے اس گاڑی کو گھیر لیا۔

پولیس اہل کاروں کے ہاتھ میں ڈنڈے ہیں اور جیسے ہی گاڑی ان کے نرغے میں آئی انہوں نے گاڑی پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیے۔

پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس ویڈیو کے ساتھ تحریر کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کے گلو بٹ اس طرح گاڑیاں توڑنے کا جنون رکھتے ہیں۔

تحریکِ انصاف نے آٹھ سال قبل دیے گئے دھرنے کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 2014 سے اب تک زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔


واضح رہے کہ ویڈیو میں نظر آ رہا ہے کہ پولیس نے گاڑی کے شیشے توڑ دیے ہیں۔ جب کہ بعض اہل کاروں کی پنجابی زبان میں آوازیں بھی آ رہی ہیں کہ اس گاڑی کے پیچھے ایک اور گاڑی آ رہی ہے اس کو پکڑو۔

واضح رہے کہ گاڑی پر ڈنڈے برسانے والوں میں بعض افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے پولیس کی وردی نہیں پہنی ہوئی اور وہ بھی ڈنڈے تھامے ہوئے ہیں۔

بعد ازاں صحافی ارشد شریف نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس گاڑی کو یاسمین راشد چلا رہی تھیں اور ان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر ایک اور خاتون سوار ہیں۔

یاسمین راشد کے بقول ان کے ہاتھ بھی اس دوران زخمی ہوئے جب کہ ان کی گاڑی کو پولیس نے توڑ دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر یاسمین راشد کو کئی افراد 'آئرن لیڈی' بھی قرار دے رہے ہیں۔

ا

س طرح ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے جس میں اسی مقام پر ایک اور گاڑی کو پولیس نے روک رکھا ہے۔

اس گاڑی میں سے صرف ایک شخص اترتا ہے جس پر پولیس اہل کار ڈنڈے برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس شخص کا پی ٹی آئی کے احتجاج سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہے یا نہیں۔

پولیس اہل کار اور سادہ لباس میں موجود اہل کار اس شخص کی گاڑی پر بھی ڈنڈے برساتے ہیں جب کہ کئی اہل کار اس گاڑی میں سوار شخص پر تشددکرتے ہیں۔ بعد ازاں ایک پولیس افسر وہاں آ کر اس شخص کو محفوظ کرتا ہے۔

تحریکِ انصاف کی رہنما عندلیب عباس نے بھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے اور کہا ہے کہ گلو بٹ حملہ کر رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی کارکنان نہیں رکیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ" نہ رکیں گے، نہ جھکیں گے اور نہ ہی ڈریں گے۔"

عندلیب عباس نے جو ویڈیو شیئر کی ہے اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہل کار ان کی گاڑی کے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عندلیب عباس ویڈیو میں پولیس اہل کاروں سے پوچھتی ہیں کہ ان کی گاڑی کو کیوں روکا جا رہا ہے۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کے کارکنان ان کی گاڑی کے قریب آتے ہیں تو پولیس اہل کار سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔

عندلیب عباس ویڈیو میں کہتی ہیں کہ ان کی گاڑی کو پولیس اہل کار توڑنے لگے تھے۔

بعض افراد سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر کی ویڈیو بھی شیئر کر رہے ہیں جس میں پولیس اہل کار انہیں حراست میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم پولیس کو ان کی گرفتاری میں کامیابی نہیں مل سکی۔

اسی طرح ایک اور ویڈیو بھی شیئر کی جا رہی ہے جس میں ایک بس میں سوار افراد تحریکِ انصاف کے احتجاج میں شرکت کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔ اس دوران پولیس اہل کار اس بس کو گھیر لیتے ہیں اور اس پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیتے ہیں جس سے بس کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں۔

ویڈیو میں آواز آ رہی ہے کہ بس میں سوار خواتین مسلسل آوازیں لگا رہی ہیں کہ بس کو پیچھے کیا جائے۔

بعض افراد بس پر ڈنڈے برسانے والے پولیس اہل کاروں کو سوشل میڈیا پر 'گلو بٹ' قرار دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ کئی افراد پولیس کے ساتھ ساتھ سادہ لباس میں موجود افراد کی جانب سے گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے پر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔
معروف اداکار شفاعت علی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں سوال کیا کہ سادہ لباس میں گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے والے کون ہیں؟

عبد الباسط نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے انہیں جواب دیا کہ پرانے پاکستان میں گلو بٹ یاد نہیں ہیں آپ کو؟

سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں پولیس اہل کار ایک ٹرک کو روک رہے ہیں۔

سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ریلیوں کو روکنے کے لیے پولیس عمومی طور پر شاہراہوں کو بندش کے لیے ٹرک اور کنٹینرز کا استعمال کرتی ہے۔ ان ٹرکوں کے ڈرائیور الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ان کے ٹرک زبردستی روک کر استعمال کیے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہل کار ٹرک کے ڈرائیور اور کلینر پر تشدد کر رہے ہیں اور ان کے چہروں پر تھپڑ مارے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین پولیس کے اس عمل کو بھی 'گلو بٹ' کے طرز کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بعض صارفین دعویٰ کر رہے ہیں کہ لاہور شہر میں ہر ایک کلو میٹر کے فاصلے پر چوکی بنی ہوئی ہے اور ان چوکیوں پر اہل کاروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ کیا یہ واقعی پولیس ہے یا گلو بٹ بھرتی ہو چکے ہیں۔


دوسری جانب پولیس کی کارروائیوں پر پنجاب اور مرکز میں حکومت میں موجود جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن پارلیمان حنا پرویز بٹ کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب پولیس کو سیلوٹ کرتی ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے احتجاج میں پتھروں اور شیشے کا سامنا کیا۔

ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ ' پنجاب پولیس ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہیں، ان فتنوں کو ہر حال میں روکنا ہے۔'

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا نے بھی عمران خان کو مسترد کر دیا ہے۔

گلو بٹ کون ہے؟

واضح رہے کہ 2014 میں تحریک منہاج القرآن اورعوامی تحریک (پی اے ٹی) کے مرکزی دفتر سے رکاوٹیں ہٹانے پر پی ای ٹی کے کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوا تھا۔

اس وقت بھی پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ اس احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تھا۔

اس دوران ایک سادہ لباس شخص ہاتھ میں ڈنڈا لیے گاڑیاں توڑ رہا تھا۔ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے اس شخص کو گاڑیاں توڑتے دکھایا تھا۔ بعد ازاں اس کی شناخت شاہد عزیز عرف گلو بٹ کے نام سے ہوئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے مخالفین نے شاہد عزیز کو مسلم لیگ (ن) کا کارکن قرار دیا تھا۔

گلوبٹ کو بعد ازاں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا اور اکتوبر 2014 میں ہی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے انہیں 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نے گلو بٹ کے خلاف مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرکے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کے مطابق وہ اپنی سزا پوری کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG