|
اسلام آباد۔۔۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں مقررہ وقت سے 38 منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ جس میں 336 اراکین اسمبلی میں سے صرف 138 ارکان ایوان میں موجود تھے۔
وزیر اعظم کے چین کے دورے کے باعث وزیر اعظم اور ان کے ساتھ جانے والے وزرا نشستیں تو خالی تھیں مگر اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، بیرسٹر گوہر کی نشستیں بھی خالی نظر آئی۔بیرسٹر گوہر ڈیڑھ گھنٹے تاخیر سے ایوان میں آئے۔
خیبرپختونخوا سے منتخب اپوزیشن رکن سید نسیم شاہ ایوان میں ایک بڑا بینر لے آئے جس پر بڑے الفاظ میں 'امن' لکھا ہوا تھا۔
وقفہ سوالات کی کاروائی شروع ہونے پر نگران حکومت میں گندم کی درآمد کے مسئلے پر اپوزیشن ارکان نے تو سخت تقاریر کیں مگر حکومتی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے ارکان بھی اپوزیشن کے ہم آواز ہو گئے۔ وفاقی وزرا اس معاملے پر بات کرنے سے گریزاں نظر آئے۔
وزیر اعظم کی جانب سے سیکریٹری کابینہ کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ پر کی جانے والی کارروائی کی رپورٹ پر حکومت کو پہلی بار باضابطہ طور پر کچھ بتانا پڑا۔
Your browser doesn’t support HTML5
درآمدی گندم سے کسانوں کو نقصان ہوا
سنی اتحاد کونسل کے رائے حسن نواز کا کہنا تھا کے کسانوں سے گندم کی خریداری نہ ہونے کے باعث انہیں فی ایکڑ پر کم از کم 60 ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سندھ سے منتخب رکن پیپلز پارٹی عامر مگسی بولے کہ مڈل مین کسانوں سے گندم 2700 روپے فی من خرید کر حکومت کو 4000 روپے من فروخت کر رہے ہیں۔ اس کی تحقیقات کی جائے۔
پی پی پی کی رکن ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ بتایا جائے کہ کارپوریٹ فارمنگ کیا ہے اور اس کے لیے زمین کہاں سے آئی ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ سے چھوٹے کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو گا۔ بھارتی انتخابات میں مودی کو کارپوریٹ فارمنگ کی پالیسی وجہ سے بھی نقصان ہوا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے ثناء اللہ مستی خیل کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ اس حکومت میں بھی 70 ارب روپے کی گندم امپورٹ کی گئی ہے۔
SEE ALSO: پنجاب: گندم کی خریداری سرکاری نرخ سے بھی کم کیوں؟انہوں نے گندم امپورٹ معاملے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا تو وزیر قانون نے جوب دیتے ہوئے کہا کے کابینہ سیکرٹری کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی سفارش پر کاروائی کی جا رہی ہے۔ آپ اس ایوان کی کمیٹی بنالیں۔ جس پر پیپلزپارٹی کے رکن سید حسین طارق نے کہا کہ گندم خریداری پر عدالتی تحقیقات کرانے کو چھوڑیں۔ اس ایوان کی کمیٹی بنائیں جو یہ تحقیقات کرے کہ کسانوں پر ظلم کا ذمہ دار کون ہے۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ آپ جوڈیشل انکوائری کیوں نہیں کرانا چاہتے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کے ثناء اللہ مستی خیل نے کسان کے ساتھ ظلم نامنظور کے نعرے لگائے۔
گندم کی خرید اور مڈل مین کی لوٹ کھسوٹ
اپوزیشن کے خواجہ شیراز نے کہا کے کسانوں سے فی من گندم 27 سو روپے خریدی گئی ہے۔۔ اس سے تو ان کی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ سنی اتحاد کونسل کے بریگیڈیئر ریٹائر اسلم گھمن نے گندم خریداری کا ذمہ دار نگران وزیر اعلیٰ و نگران وزیر اعظم کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف تحقیقات کیوں نہیں کی جا رہی ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رکن میر شبیر بجارانی کا کہنا تھا کہ گندم اسکنڈل میں کسی سیکرٹری کو ہٹانے سے کسان کو تو کوئی رلیف نہیں ملا۔ گندم امپورٹ کرنے پر تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائے جائے۔ مسلم لیگ ضیاء کے اعجاز الحق نے کہا کہ آپ گندم کی خریداری کی باتیں کر رہے ہیں۔ بار دانہ بھی رشوت لے کر مخصوص لوگوں کو دیا گیا۔ پنجاب حکومت نے کسانوں سے گندم نہیں خریدی۔ پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کرائی جائے۔ ارکان اسمبلی نے باردانہ نہیں خریدا۔ آڑھتیوں نے مڈل مین کے ساتھ مل کر باردانہ لیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
زرتاج گل نے کہا کہ وزیر پارلیمانی امور اس ایوان کی عزت کی بات کرتے ہیں مگر 22 سوالات کے تحریری جوابات ہی نہیں دیے گئے، کیا یہ ایوان کی عزت ہے۔
گندم مسئلے پر سوالات کا جواب تو وزیر فوڈ سکیورٹی کو دینا تھا مگر ان کے چین کے دورے پر ہونے کے باعث سخت سوالات کا سامنا وزیر قانون اعظم تارڑ کو کرنا پڑا۔ انہوں نے نگران حکومت کے دور میں گندم کی خریداری کے حوالے سے کچھ بھی کہنے سے گریز گیا، لیکن یہ بتایا کہ اس معاملے پر ایف آئی اے نے بھی تحقیقات کی ہیں اور مجرمانی غفلت برتنے پر کاروائی کی جا رہی ہے۔
سنی اتحاد کے ثناء اللہ مستی خیل نے وزیر قانون کی ٹائی پر تنقید کی جس کے ردعمل میں انہوں نے اپنی ٹائی اتار دی۔
آرڈیننسز کے اجرا پر تنقید
قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کو اسٹیڈنگ کمیٹیاں قائم نہ ہونے کے باعث بھی سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بولے کہ ایوان ابھی تک مکمل نہیں ہے۔ کمیٹیاں تاحال نہیں بن پائی ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ کو سنی اتحاد کونسل کے رکن ملک عامر ڈوگر نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ پارلیمان کی عزت ہے کہ حال ہی میں دو آرڈیننس لائے گئے۔ کل تک یہی حکومت اور یہی وزیر قانون تھے جو نوے روز کے نیب ریمانڈ کی مخالفت کرتے تھے۔
SEE ALSO: ترمیمی نیب آرڈیننس کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟کل تک یہ کہتے تھے کہ قتل کا ریمانڈ چودہ روز کیوں ہے۔ اب 14 روز کی بجائے 40 روز کا ریمانڈ کیوں کر دیا گیا ہے۔ الیکشن ٹریبونل میں سابق ججز کو لا کر فارم 47 والوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب میں کہا کہ یہ آرڈیننس ایوان میں آئیں گے تو تبدیل کر دیں۔ قیدی نمبر 804 تو نوے روز کے ریمانڈ کی بات کر رہا ہے۔ اپوزیشن 14 دن کی بات کیوں کر رہی ہے۔
قومی اسمبلی نے سیڈ ترمیمی آرڈیننس 2024 میں 120 روز کی توسیع کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر دی۔
چمن دھرنا اور کشیدہ صورت حال
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے چمن باڈر پر کشیدہ صورت حال کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ 8 ماہ سے چمن باڈر پر ہزاروں لوگ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے مسائل، مشکلات اور حق روزگار کی بنیاد پر احتجاج کیا ہے۔ اطلاعات آ رہی ہیں کہ ایف سی ملٹری فورسز نے ان پر حملہ کر دیا ہے۔ زخمی ہونے کے اطلاعات آئی ہیں۔ انگور اڈہ پر بھی حالات تصادم کے طرف جا رہے ہیں۔ طورخم میں بھی صورت حال اسی طرح کی ہو رہی ہے۔ ،پورے افغانستان بارڈر پر یہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ سرحد پر قبائل اور ریاستی ادارے تصادم کی طرف جا رہے ہیں۔ ان لوگوں سے پاسپورٹ اور ویزے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں اس طرح کی پابندیاں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔ ہم انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں خود کو پیش کر رہے ہیں۔ اسپیکر کی سربراہی میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کی کمیٹی بنائی جائے۔ پارلیمانی کمیٹی جا کر صورت حال کا جائزہ لے اور وزیر داخلہ آ کر صورت حال پر ایوان کو اعتماد میں لیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ چمن میں ابھی فائرنگ ہوئی ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ان پر فائرنگ کیوں ہوئی، وہ پاکستان کے شہری ہیں ،انہیں معاوضہ ملنا چاہئے۔ سرکار انہیں گلے لگائے۔ شہید اور زخمی ہونے والوں سے معافی مانگے۔ یہاں یوٹیوبرز کو اجازت دینی چاہئے۔
SEE ALSO: گیس سلینڈر دھماکے سے 18 ہلاکتیں؛ کن احتیاطی تدابیر سے حادثات سے بچا جا سکتا ہے؟حیدرآباد گیس سیلنڈر دھماکہ
قومی اسمبلی کے اجلاس میں حیدرآباد پریت آباد میں ایل پی جی سلینڈر کے دھماکے کے واقعے پر حیدرآباد سے ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے وزیراعظم سے حیدرآباد کا دورہ کرنے اور اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا۔ ایم کیو ایم کے رکن نے ایوان کو بتایا کہ حیدرآباد سلینڈر دھماکے میں اب تک 25 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔