افضل رحمن
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ یہ علماء اور دینی راہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے حکومت کی مدد کریں۔
انہوں نے ایک دینی درس گاہ جامعہ نعیمہ میں ہفتے کے روز ایک سیمنار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور دنیا بھر میں اسلام کے نام پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے جسے روکنے کی ذمہ داری دینی راہنماؤں پر عائد ہوتی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جس معاشرے میں انسانوں کو مسلکی اختلافات کی بنا پر قتل کر دیا جائے ، وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا، جہاں اقلیتں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں، جہا ں مذہب اختلاف اور تفرقے کا سبب بن جائے، وہاں علماء کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کو بیانیے کی اس غلطی سے آگاہ کریں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں اسلام کے نام پر نفرت کا پرچار ہو رہا ہےلہذا علماء کو چاہیے کہ وہ اس دین کو دہشت گردی کی گرفت سے آزاد کروائیں۔
ملکی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ اب بھی خال خال دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ جاری ہے جس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء متحد ہو کر ریاست کی مدد کریں۔
اسلام کی غلط تشریح کے ذریعے جو فساد پھیل رہا ہے اس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے زور دیا وہ مدرسوں کے ذریعے اسلام کے امن کا دین ہونے کے پیغام کو عام کریں اور جہاد کی جو غلط تشریح ہو رہی ہے اس کو مسترد کریں۔
وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ ماضی میں علماء کے باہمی اختلافات ہوتے تھےلیکن انہوں نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت نہیں پھیلائی۔ لہذا آج علماء کو اپنے گریبانو ں میں جھانکنا ہوگاکہ وہ سچے مسلمان پیدا کررہے ہیں یا مختلف مسلکوں کے نمائندے پیدا کر رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بریلوی مسلک کے علماء دہشت گردی کے تو خلاف ہیں مگر یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کھل کر یہ پیغام عام کر پاتے ہیں یا نہیں۔ سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہ جامعہ نعیمہ والے بنیادی طورپر بریلوی مسلک سے جڑے ہیں اور ان کے علماء نہ صرف دہشت گردی کے خلاف ہیں بلکہ و ہ دہشت گردی کے خلاف بیانات بھی دیتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر میں یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ عوام میں جا کر عملی طورپر لوگوں کو تبلیغ کریں اور ان کو ذہنی طور پر تیار کریں کہ دہشت گرد اسلام کے نام کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کا اپنی تقریر میں کہنا تھا کہ علماء کے پاس جمعے کا منبر ہے ۔ یہ لوگوں کے پاس پہنچنے کا موثر فورم ہے، اس وجہ سے کہ اس سے کی جانے والی بات پورے ملک میں سنی جاتی ہےلہذا علماء کو چاہیے کہ اس کے ذریعے وہ اتحاد کا پیغام دے کردہشت گردی کے دروازے بند کر دیں۔