پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف چار سال بعد 21 اکتوبر کو وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد کی واپسی کا معاملہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے تناظر میں وطن واپسی اور عوام کو نئی اُمید دینا نواز شریف کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما کہتے ہیں کہ نواز شریف کی وطن واپسی سے ملکی معیشت ایک بار پھر ٹریک پر آ جائے گی۔
اس دوران نواز شریف کی وطن واپسی پر اُن کی گرفتاری کا بیان بھی نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی سے منسوب کیا گیا۔ بعدازاں اُنہوں نے وضاحت کی کہ نواز شریف کا معاملہ عدالت میں ہے، لہذٰا اُن کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے منگل کو 'سما' ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو وطن واپسی پر ہتھکڑیاں لگانے کا فیصلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دائرہ اختیار ہے۔
نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جو وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے تھے۔ بعدازاں بیماری کے باعث اُنہیں لاہور کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
عدالتی حکم پر 2019 میں اُنہیں چار ہفتے کے لیے علاج کی غرض سے برطانیہ جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ مقررہ مدت میں واپس نہ آنے پر عدالت نے انہیں مفرور قرار دیتے ہوئے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔
نواز شریف کی وطن واپسی ملکی سیاست پر کیا اثر ڈالے گی؟ کیا سابق وزیرِ اعظم پھر جیل جائیں گے؟ کیا نواز شریف کسی نئے بیانیے سے عوامی پذیرائی حاصل کر سکیں گے؟ اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے سیاسی تجزیہ کار اور ماہرِ قانون سے بات کی ہے۔
'مقدمات کا سامنا تو کرنا پڑے گا'
تجزیہ کار اور قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ چوں کہ نواز شریف کے خلاف پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں، لہذا اُنہیں واپس آ کر اِن مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔
سینئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمن شامی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو قانونی طور پر تو ایک مقدمے میں سزا ہو چکی ہے جس کے بعد اُن کی دو مختلف مقدمات میں اپیلیں زیرِ سماعت ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر عدالت کی جانب سے اُنہیں کوئی ریلیف ملا تو تب ہی وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر سکیں گے۔
مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ اِس وقت پاکستان کی عدالتِ عظمٰی میں تبدیلی آ چکی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ بغض رکھنے والے کئی لوگ رخصت ہو چکے ہیں جس کے بعد نواز شریف کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔
مجیب الرحمن شامی کے بقول یوں معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف اپنا مقدمہ لڑیں گے اور اپنی بات عدالت میں رکھیں گے۔
اُن کے بقول عدالت کے فیصلے کے بعد ہی نواز شریف کے آئندہ کے راستے کا فیصلہ ہو گا۔
'نواز شریف جیل سے باہر گئے اب واپس جیل ہی جانا پڑے گا'
سابق وفاقی وزیر، ماہرِ قانون اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ڈاکٹر خالد رانجھا سمجھتے ہیں کہ نواز شریف عدالتی حکم پر جیل سے ملک سے باہر گئے تھے۔ اُنہوں نے جانے سے قبل ایک تحریری بیان بھی عدالت میں جمع کرایا تھا۔
اُن کے بقول قانون کے مطابق نواز شریف جب بھی پاکستان واپس آئیں گے تو اُنہیں ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اسی جگہ پہنچایا جائے گا جہاں سے وہ گئے تھے، یعنی جیل واپس جائیں گے۔
اُنہوں نے مزید کہا اگر نواز شریف پاکستان واپسی پر جیل نہیں جاتے تو یہ گردان بند کرنا پڑے گی کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
نواز شریف کا حالیہ بیانیہ
نواز شریف لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک اپنے متعدد بیابات میں کہہ چکے ہیں کہ چند طاقت ور شخصیات کا احتساب ہونا چاہیے۔
نواز شریف نے حال ہی میں کہا تھا کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید، سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ اور ثاقب نثار قومی مجرم ہیں اور ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
اس پر مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما جاوید لطیف نے منگل کو وضاحت کی تھی کہ مسلم لیگ (ن) بطور جماعت جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کے احتساب کا مطالبہ نہیں کرتی۔ وہ صرف ان کرداروں کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں، جو نو مئی کے واقعات میں ملوث تھے۔
SEE ALSO:
انتخابات 2024: 'لگتا ہے عمران خان کو مائنس کر دیا جائے گا''پیپلز پارٹی کو پنجاب میں واپسی کے لیے (ن) لیگ مخالف بیانیہ اپنانا ہوگا'
کیا نواز شریف طاقت ور لوگوں کا احتساب کر سکیں گے؟
مجیب الرحمٰن شامی کے بقول پاکستان میں کسی کا بھی احتساب نہیں ہو سکتا، جب ضرورت ہوتی ہے بات اور ہوتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب ماضی میں نیب قوانین میں ترمیم زیرِ بحث تھی اُس وقت اتحادی حکومت اور خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اِس بات کی حمایت کی تھی کہ جج صاحبان اور جرنیلوں کو بھی نیب کے دائرہ کار میں لایا جائے۔
لیکن جب گزشتہ برس نیب ترامیم آئیں تو اس میں ایسی کوئی ترمیم شامل نہیں کی گئی۔
مجیب الرحمٰن شامی نے کہا اِسی طرح اگر ریٹائرڈ جرنیلوں کا احستاب کرنا ہے تو اُس کے لیے وسیع تر حمایت کی ضرورت ہے۔ اُن کی رائے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان جب تک اتفاقِ رائے نہیں ہوتا وہ اِس طرح کا کوئی کام کر نہیں سکیں گی۔
نواز شریف جیل جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق نواز شریف کو جیل جانے سے روکنے کے لیے اُن کی سزا کے عدالتی فیصلے کو ختم کرانا ہو گا۔
اُن کے بقول جس فیصلے کے تحت وہ جیل گئے تھے یا اُن کی آمد سے قبل عدالت سے اُنہیں حفاظتی ضمانت لینا ہو گی۔ ایک راستہ یہ ہو سکتا ہے جسے عدالتی زُبان میں انیبلنگ بیل کہا جاتا ہے کہ جس میں نواز شریف پاکستان واپس آ کر قانون کے مطابق خود کو پیش کریں۔ جیل جائیں اور سیکشن 426 کے تحت پہلے سنائی گئی سزا کو ختم کرائیں۔