پاکستان میں نگراں حکومت کے قیام کے بعد اور آئندہ چند ماہ میں ممکنہ عام انتخابات سے قبل سیاسی ماحول میں تیزی آ رہی ہے جب کہ گزشتہ حکومت کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیان بازی شروع ہو گئی ہے۔
آئندہ عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی کی تاریخ کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ پنجاب میں کسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ نواز شریف نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے برطانیہ گئے تھے اور اب تک وہاں مقیم ہیں۔
پیپلز پارٹی کا ایک جانب یہ اعتراض ہے کہ اسے پنجاب میں لیول پلینگ فیلڈ میسر نہیں ہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ 90 دن کی آئینی مدت میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں سیاسی جگہ چاہتی ہے جس کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے جس سے دونوں جماعتوں میں تلخی بڑھ رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی سلیم بخاری گزشتہ حکومت کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں عداوت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ناراضی کی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اسے پنجاب میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مناسب مواقع نہیں دے رہی جب کہ اس پر سابق صدر آصف زرداری نواز شریف کو آمادہ کر چکے تھے۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کی موجودگی
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سلیم بخاری کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پیپلز پارٹی کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ ان کے بقول مسلم لیگ (ن) اپنے سیاسی گڑھ سمجھے جانے والے صوبے میں پیپلز پارٹی کو کوئی رعایت نہیں دے رہی۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نواز شریف کی اکتوبر میں واپسی کے اعلان کا ذکر کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم چلانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب میں سیاسی گنجائش مزید کم ہو جائے گی۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری بیانات دے رہے ہیں کہ 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اس وقت کے چیف جنرل احمد شجاع پاشا کے ساتھ مل کر سازش کے ذریعے ان کی جماعت کو پنجاب میں شکست دی تھی۔
کچھ مبصرین کے خیال میں پنجاب میں ووٹ کے حصول کے لیے پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی مخالفت کرنا ہوگی جس سے وہ اپنی کامیابی کی راہ کسی حد تک ہموار کر سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے لیے مسلم لیگ مخالف بیانیہ اپنانا کیوں ضروری؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ پنجاب میں ان کا ووٹر روایتی طور پر مسلم لیگ (ن) کا مخالف رہا ہے جسے واپس لانے کے لیے مسلم لیگ (ن) مخالف بیانیہ اپنانا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو لگتا ہے کہ 2018 میں انہیں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جانے والا ووٹر اسی صورت واپس آ سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بجائے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی بنا پر پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن جیسے رہنماؤں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی حالاں کہ ان کے بیانات ان کی اپنی جماعت کے بجائے پی ٹی آئی کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) سے مخاصمت اور سیاسی بیانات کے تبادلے پر گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے صرف مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے بیانات کے جواب دیے ہیں۔ اگر دوسری جانب سے بیان بازی نہیں ہوگی تو وہ بھی اس کا جواب نہیں دیں گے۔
’مسلم لیگ انتخابات سے فرار کیوں اختیار کر رہی ہے؟‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلز پارٹی 90 روز میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) الیکشن کمیشن کی ترجمان بن کر آئندہ انتخابات کی تاریخ دے رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے ترجمان کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو غلط فہمی ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی مشکلات کے باعث وہ پنجاب میں باآسانی کامیاب ہو جائے گی، تو یہ ان کی غلط فہمی ہے اور اگر ایسا ہے تو مسلم لیگ (ن) انتخابات سے فرار کیوں اختیار کر رہی ہے؟
فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں کسی جماعت سے اتحاد کی خواہش مند نہیں ہے۔ ان کے بقول ان کی جماعت کے پاس مسلم لیگ( ن) علاوہ بھی اتحاد یا سیٹ ایڈجسمنٹ کے مواقع موجود ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا پیپلز پارٹی تحریکِ انصاف سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتی ہے؟ کے جواب میں فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اس حوالے سے امکانات موجود ہیں اور گڈ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کیا جاسکتا ہے البتہ نو مئی کے واقعات میں ملوث پی ٹی آئی سے ہاتھ نہیں ملایا جائے گا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں انتخابی اتحاد مشکل
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں سیاسی تلخی بڑھے گی تاہم انتخابات کے بعد ممکن ہے کہ دونوں پھر اتحادی بن جائیں۔
سیاسی مبصر سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان حالیہ تلخ بیانات کے بعد یہ مشکل دیکھائی دیتا ہے کہ دونوں جماعتیں انتخابات میں اتحاد کریں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے جس کے اشارے فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے نگراں حکومت میں بطور وفاقی وزیر کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے تلخ بیانات پر ان کا کہنا تھا کہ اس سے بدگمانی کو بڑھاوا ملا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان صورتِ حال کی سنگینی میں اضافہ ہوگا۔
انتخابات کے بعد مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے دوبارہ اتحادکا امکان
دوسری جانب صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں کی نظریں وزارتِ عظمی پر ہیں، جس کے لیے مسلم لیگ (ن) کو تو امید ہے کہ پنجاب سے کامیابی کی صورت میں وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ وفاق میں حکومت بنا لیں گے۔تاہم پیپلز پارٹی کی صورتِ حال ایسی نہیں ہے۔ ان کو سندھ کے علاوہ کسی صوبے میں خاطر خواہ نشستیں حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
مظہر عباس کے مطابق پیپلز پارٹی کو یہ بھی شکوہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ سے اپنی قربتیں بڑھا رہی ہے جس کی مثال ان کی حکومت کے دور کے بیوروکریٹس کا اہم عہدوں پر تقرر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے دوران دونوں جماعتوں میں تلخی بڑھنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دوبارہ اتحاد کی صورت اکھٹی ہوں۔