پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے آٹھ قانون سازوں نے پیر کی شام جب مشترکہ طور پر مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے کا اعلان کیا تو تجزیہ کاروں اور سیاسی حلقوں کے نزدیک یہ حکمران جماعت کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔
لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے منگل کو اپنے ردِ عمل میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان ارکانِ پارلیمان کا چلے جانا اُن کی جماعت کا حقیقی نقصان نہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ چھوڑ کر جانے والے "ہمارے کبھی تھے ہی نہیں۔"
پانچ اراکین قومی اسمبلی اور تین اراکین پنجاب اسمبلی نے پیر کو یہ کہہ کر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا وہ ’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘ بنا رہے ہیں۔
جن اراکین نے استعفی دیا اُن میں قومی اسمبلی کے ارکان خسرو بختیار، طاہر بشیر چیمہ، طاہر اقبال چوہدری، باسط بخاری اور رانا قاسم نون شامل ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت جون کے پہلے ہفتے میں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر رہی ہے اور اس سے محض کچھ ہفتے قبل ہی اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ منتخب اراکین کا مستعفی ہونا پارٹی کے لیے ایک دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل بھی حالیہ چند ہفتوں میں کئی قانون ساز مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے خلاف کوئی بیان نہ دیں۔
لیکن سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے منگل کو اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جانے والے ارکانِ اسمبلی کے بارے میں کہا کہ یہ افراد "جاتے ہوئے بتا گئے ہیں کہ وہ کس قسم کے لوگ تھے۔"
نواز شریف نے کہا کہ ’’چھوڑنے والوں کو کہیں کھڑا ہونے کی جگہ نہیں ملے گی۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کرنے والے قانون سازوں نے انتخابی اصلاحات کے ترمیمی بل پر بھی مسلم لیگ (ن) کو ووٹ نہیں دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد یہ الزام عائد کرچکے ہیں کہ اُنھیں بظاہر آئندہ عام انتخابات شفاف ہوتے دکھائی نہیں دیتے کیوں کہ اُن کے بقول اُن کی جماعت کو بند گلی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
سیاسی طور پر کشیدہ اس ماحول میں آئین کے تحت نگران حکومت کی تشکیل کے بارے میں قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان منگل کو باضابطہ مشاورت ہونے جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ اگر نگران وزیرِ اعظم کے نام پر وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو سکا تو یہ معاملہ آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا اور اگر وہ بھی یہ معاملہ طے نہ کر سکی تو پھر الیکشن کمیشن نگران وزیرِ اعظم مقرر کرنے کا مجاز ہے۔