وزارتِ عظمیٰ کے بعد نواز شریف پارٹی صدرات کے لیے بھی نااہل

فائل

علی رانا

سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ کوئی بھی نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔ بطور پارٹی صدر نوازشریف کے اٹھائے گئے تمام اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔

انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس 2017 کے خلاف درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا اور قرار دیا کہ کوئی بھی نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

فیصلے میں نواز شریف کے بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ نواز شریف فیصلے کے بعد جب سے پارٹی صدر بنے تب سے نااہل سمجھے جائیں گے۔

عدالت کی جانب سے آئندہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات کو بھی معطل کرتے ہوئے نواز شریف کی جانب سے سینیٹ کے جاری کردہ ٹکٹ بھی منسوخ کر دیئے گئے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ نوازشریف کا نام پاکستان مسلم لیگ نون کی صدارت سے نکالا جائے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو دوبارہ سینیٹ انتخابات کے لئے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63پر پورا اترنے والا ہی پارٹی صدر بن سکتا ہے۔

انتخابي اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری سے پہلے عدالت سے نااہل قرار دیا گیا شخص کسی سیاسی جماعت میں عہدے کا اہل نہیں ہو سکتا تھا۔

پاناما کیس میں نااہلی کے بعد نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے اکتوبر 2017 میں انتخابي اصلاحات ایکٹ 2017 کی شق 203 میں ترمیم کی جس کے بعد نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کی صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں، اس ایکٹ کے خلاف کئی جماعتوں کی طرف سے درخواستیں دائر کی گئیں۔

بدھ کو سپریم کورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔

تحریک انصاف کے راہنما بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ سینیٹ ٹکٹ اس شخص نے جاری کیے جو نااہل ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کسی ارکان اسمبلی کو چور اچکا نہیں کہا، مفروضے پر مبنی سوالات کررہے تھے، الحمداللہ اور ماشاء اللہ کے لفظ اپنی لیڈر شپ کے لیے استعمال کیے، ہم نے کہا تھا ہماری لیڈر شپ اچھی ہے، قانونی سوالات پوچھ رہے تھے تاہم کسی وضاحت کی ضرورت نہیں اور نہ وضاحت دینے کے پابند ہیں، ان سوالات پر جو رد عمل آیا وہ قابل قبول نہیں۔

بابر اعوان نے دلائل میں کہا کہ نیلسن منڈیلا کی اہلیہ نے پارٹی اور تحریک چلائی، نیلسن منڈیلا نے بعد میں اہلیہ کو طلاق دے دی لیکن اہلیہ نے نہیں کہا کہ مجھے کیوں نکالا۔

پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل کہا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کا اختیار عدالت کو عوام نے دیا، نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ عدالت کا نہیں بلکہ عوام کا تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت بنانے کا مقصد حکومت بنانا ہوتا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لاہور میں جلسہ کریں گے تو کتنے لوگ آئیں گے اور آپ کی سیاسی جماعت کا لیڈر جلسہ کرے تو لوگ زیادہ آئیں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں ون مین شو ہوتا جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ عام لیڈر اور پارٹی سربراہ کے جلسے میں فرق ہوتا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت بنانے کا حق آئین فراہم کرتا ہے، آئین کے کسی دوسرے آرٹیکل سے اس بنیادی حق کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون سازی بنیادی حقوق کے منافی ہو تو جوڈیشل نظر ثانی ہوسکتی ہے۔ رانا وقار کا کہنا تھا کہ آئین کی بنیاد جمہوریت ہے، آئین کے آرٹیکل 17 کے آگے کسی دوسرے آئینی آرٹیکل کی رکاوٹ نہیں لگائی جا سکتی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے عدالت صرف آرٹیکل 17 کو مدنظر رکھے جس پر رانا وقار نے کہا کہ آرٹیکل 17 کا سب سیکشن سیاسی جماعت بنانے کی اجازت دیتا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 17 کےسب آرٹیکل 2 پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔

شیخ رشید احمد کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے جواب الجواب دلائل میں کہا کہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے غلط کام کرنا بھی جائز نہیں، کوئی ایسا شخص جس کے خلاف بدعنوانی، ڈرگ مافیا یا چوری کا ڈکلئیریشن ہو وہ کیسے پارٹی سربراہ بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ کوئی ربڑ اسٹمپ یا پوسٹ آفس نہیں بلکہ وہ ہدایات دینے کا اختیار رکھتا ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد انتخابی اصلاحات ایکٹ کےخلاف درخواستوں پر سماعت مکمل ہوئی۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ چار بجے فیصلہ محفوظ کرنے یا مختصر فیصلہ سنانے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ فیصلہ چار بجے سنایا جانا تھا جو کہ ساڑھے پانچ بجے کے بعد سنایا گیا۔