پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے کہا ہے کہ امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کے لیے مرتب کردہ سفارشات پر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے اگر ان کے خدشات کو دور نا کیا تو اس معاملے پر پیش رفت مشکل ہو گی۔
بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ رواں ہفتے امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں سے الگ الگ ملاقاتوں میں بھی مسلم لیگ (ن) نے اپنے اس موقف کو دہراتے ہوئے ان پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں اور خود مختاری کے احترام کو یقینی بنائے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔
’’اس کی کیسے ضمانت دی جائے گی کہ ڈورن حملے نہیں کیے جائیں گے۔ غیر ملکی ایجنٹ پاکستان میں کام نہیں کریں گے اور ہمارے ہوائی اڈے استعمال نہیں ہوں گے، یہ ہمارے خدشات ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے۔‘‘
نواز شریف نے کہا کہ پاکستان تنہا نہیں بلکہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا ہے مگر امریکہ اور مغربی دنیا کو اس کے خدشات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت تمام جماعتوں کے خدشات کو دور کر کے سفارشات کی پارلیمان سے متفقہ منظوری چاہتی ہے۔
’’اکثریت رکھتے ہوئے بھی ہم متفقہ سوچ کی طرف جانا چاہتے ہیں، اگر ہم نے صرف کثرت رائے سے ہی (فیصلہ) کرنا ہوتا پارلیمان کے اجلاس کو اتنے دنوں تک چلانے کی ضرورت نہیں تھی ... ہم نے بین الاقوامی برادری کو جو پیغام دینا ہے اس کے لیے متفقہ قرارداد ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘‘
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ کوشش کے باوجود اگر حزب اختلاف کے خدشات دور نا ہوئے تو پھر جمہوری عمل کے مطابق اکثریت کو جو حق حاصل ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے گا۔
امریکہ سے تعلقات کے از سر نو تعین کے بارے میں پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کی مجوزہ سفارشات کی بعض شقوں پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے خدشات کے بعد اب نیا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایک طرف مسلم لیگ (ن) اپنے نقطعہ نظر پر ڈٹی ہوئی ہے تو دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ جاری ہے۔
حکومت فضل الرحمٰن کو بائیکاٹ ختم کرنے پر رضا مند کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور اس سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے بدھ کو صدر آصف علی زرداری کی دعوت پر ایوان صدر میں ان سے ملاقات بھی کی۔