اسمبلی نیا آئین تحریر کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ پارلیمان کا کردار ادا کرے گی
واشنگٹن —
نیپال کی عبوری حکومت نے نئی منتخب آئین ساز اسمبلی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا افتتاحی اجلاس 22 جنوری کو منعقد کرے۔
اسمبلی نیا آئین تحریر کرنے کے اقدامات کے علاوہ پارلیمان کا کردار ادا کرے گی۔
نیپال نے بادشاہت کے خاتمے کے بعد، 2008ء میں ایک الیکشن کرایا تھا۔
تاہم، سیاسی چال سازی، کے ساتھ ساتھ نسلی، سماجی و معاشی اور علاقائی اختلافات کے نتیجے میں گذشتہ بانچ برس سے ملک کے حالات خراب تر رہے ہیں اور مکمل جمہوری دور کی امیدیں ناکام ہو کر رہ گئی ہیں۔
ادھر، پچھلے سال نومبر میں ہونے والے انتخابات کے دوران، نیپال میں ایک ماؤ رہنما نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ 'پراچندا' کے نام سے معروف پشپا کمل دہل نے حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ منگل کو ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی روک دیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق انھیں دو میں سے ایک نشست پر شکست کا سامنا تھا۔
ایک پریس کانفرنس میں پشپا کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے پاس بیلٹ بکس تبدیل کرنے اور چھپانے جیسی اطلاعات ہیں۔
نیپال کے الیکشن کمیشن نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان الزامات کے باجود گنتی جاری رہے گی۔
انتخابات کی نگرانی کے لیے نیپال میں موجود امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے ماؤ رہنما کے بیان پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ رہنما ردعمل کا پرامن طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنی شکایات کو قانونی طریقے سے درج کرائیں گے۔
ماؤ نواز باغیوں کی تقریباً 10 سال کی تحریک کے بعد ملک سے شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا تھا اور انھیں 2008ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی تھی۔
لیکن رواں ہفتے کے انتخابات کے ابتدائی نتائج میں وہ سنٹرسٹ نیپالی کانگریس اور یونائیٹڈ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی سے پیچھے ہیں۔
اسمبلی نیا آئین تحریر کرنے کے اقدامات کے علاوہ پارلیمان کا کردار ادا کرے گی۔
نیپال نے بادشاہت کے خاتمے کے بعد، 2008ء میں ایک الیکشن کرایا تھا۔
تاہم، سیاسی چال سازی، کے ساتھ ساتھ نسلی، سماجی و معاشی اور علاقائی اختلافات کے نتیجے میں گذشتہ بانچ برس سے ملک کے حالات خراب تر رہے ہیں اور مکمل جمہوری دور کی امیدیں ناکام ہو کر رہ گئی ہیں۔
ادھر، پچھلے سال نومبر میں ہونے والے انتخابات کے دوران، نیپال میں ایک ماؤ رہنما نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ 'پراچندا' کے نام سے معروف پشپا کمل دہل نے حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ منگل کو ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی روک دیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق انھیں دو میں سے ایک نشست پر شکست کا سامنا تھا۔
ایک پریس کانفرنس میں پشپا کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے پاس بیلٹ بکس تبدیل کرنے اور چھپانے جیسی اطلاعات ہیں۔
نیپال کے الیکشن کمیشن نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان الزامات کے باجود گنتی جاری رہے گی۔
انتخابات کی نگرانی کے لیے نیپال میں موجود امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے ماؤ رہنما کے بیان پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ رہنما ردعمل کا پرامن طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنی شکایات کو قانونی طریقے سے درج کرائیں گے۔
ماؤ نواز باغیوں کی تقریباً 10 سال کی تحریک کے بعد ملک سے شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا تھا اور انھیں 2008ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی تھی۔
لیکن رواں ہفتے کے انتخابات کے ابتدائی نتائج میں وہ سنٹرسٹ نیپالی کانگریس اور یونائیٹڈ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی سے پیچھے ہیں۔