|
جمعرات کو وائٹ ہاؤس نے کہا ہےکہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی اس ہفتے اپنے ملک کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی پر تنقید "افسوسناک" ہے۔اسرائیلی وزیرِ اعظم نے منگل کوامریکہ پر ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا الزام عائد کیا تھا۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا، "یہ تبصرے انتہائی مایوس کن اور یقینی طور پر ہمارے لیے پریشان کن تھے۔
SEE ALSO: اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی میں تعطل کی وجہ رفح ہے: امریکی وزیر دفاعاسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے دعویٰ کیاتھا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکی جا رہی ہے جس کا مطلب بقول انکے، یہ ہے کہ رفح میں اسرائیل کے آپریشن کو سست کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نے منگل کو ایک ویڈیو بیان میں انگریزی میں بات کرتے ہوئے ہتھیاروں کی منتقلی میں "رکاوٹوں" پر امریکی صدر جو بائیڈن پر تنقید کی۔
نیتن یاہو نے کہا تھا کہ یہ ناقابلِ فہم ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں امریکی حکومت اسرائیل کے لیے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی کو روک رہی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل کی جانب سے امریکی ہتھیاروں کے استعمال میں بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی ہوئی ہے: بائیڈن انتظامیہ رپورٹاسرائیلی وزیرِ اعظم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے حالیہ دورۂ اسرائیل میں کہا تھا کہ وہ اس تاخیر کو ختم کرنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اینٹنی بلنکن نے کہا کہ دو ہزار پاؤنڈ وزنی بم وہ واحد ہتھیار ہیں، جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
منگل کو محکمۂ خارجہ میں ایک نیوز کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم ایک شپمنٹ کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے بارے میں صدر بائیڈن نے بات کی ہے اور جو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں سے متعلق ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ان بموں کےممکنہ طور پر رفح جیسے گنجان آباد علاقے میں استعمال کیے جانے پر خدشات ہیں۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی حزب اللہ اور اسرائیل میں موجودہ کشیدگی ختم کر سکتی ہے: امریکہامریکہ کے صدر جو بائیڈن نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکت کے خدشات پر رواں سال مئی سے اسرائیل کو بعض بھاری بموں کی فراہمی میں تاخیر کی ہے۔
کربی نے علیحدہ سےکہا کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان جمعرات کو اپنے اسرائیلی ہم منصب اور اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
واشنگٹن اسرائیل کا اہم اتحادی ہے، لیکن وائٹ ہاؤس نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، جہاں اسرائیل کی حماس کے خلاف آٹھ ماہ سے زیادہ کی کارروائیاں ابھی جاری ہیں۔
اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق، جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسندوں کے جنوبی اسرائیل پر کیے گئے ایک غیر معمولی حملے سے ہوا، جس کے نتیجے میں 1,194 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں کم از کم 37,431 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
یہ رپورٹ ایجنسی فرانس پریس کی اطلاعات پر مبنی ہے۔