دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک بھارت کے دار الحکومت میں دنیا کے 20 امیر ترین ملکوں کا سربراہی اجلاس، 9 اور 10 ستمبر کو ہو رہا ہے۔ اس اجلاس سے قبل شہر کے بہت سے غریب ترین لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے اور وہ کہتے ہیں،“ ہمیں تقریباً ان آوارہ کتوں اور بندروں کی طرح ہٹادیا گیا ہےجنہیں اس اجلاس کے موقع پر دہلی کے مضافاتی علاقوں سےبھگایا گیا ہے۔ “
اجلاس سے پہلے نئی دہلی کی پر ہجوم سڑکیں دوبارہ کھل گئی ہیں ۔ وہ فٹ پاتھ اسٹریٹ لائٹس سے روشن ہو گئے ہیں جو کبھی تاریک ہوا کرتے تھے ۔ شہر کی عمارات اور دیواروں کو شوخ رنگوں کی پینٹنگز سے سجا دیا گیا ہے ، ہر جگہ پھول پودے لگا دئے گئے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو امید ہے کہ نو ستمبر کو شروع ہونے والے دو روزہ سربراہی اجلاس کے لئے دہلی شہر کی تزئین و آرائش کے لئے 120 ملین ڈالر کے بیوٹی فیکیشن پراجیکٹ سے بھارت کے ثقافتی تنوع اور عالمی اسٹیج پر اس کی حیثیت کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی ۔
لیکن نئی دہلی کے بہت سے ٹھیلہ فروشوں اور گنجائش سے زیادہ مکینوں سے بھری کچی آبادیوں کے غریب اس تبدیلی کی وجہ سے بے گھر اور روزی کمانےکے وسائل سے محروم ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں غربت سے نمٹنے کی سرکاری پالیسیوں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق بیس ملین آبادی کے حامل دہلی شہر میں 47 ہزار لوگ بے گھر تھے لیکن انسانی حقوق کے سر گرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد کم از کم ایک لاکھ 50 ہزار تھی ۔
جنوری سے اب تک شہر میں سینکڑوں مکانات اور سڑک کنار ے بنی چھوٹی دکانیں گرا دی گئی ہیں اور ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ درجنوں مضافاتی کچی آبادیوں کو زمین بوس کر دیا گیا ہے جب کہ بہت سے مکینوں کو انہدام کی کارروائی سے صرف تھوڑی ہی دیر قبل انخلا کے نوٹس ملے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صرف غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کی گئی ہے لیکن انسانی حقوق کے سر گرم کارکن اور نکالے جانے والے لوگ پالیسی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ اس سے ہزارو ں مزید لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے ۔
انہدام کی ایسی ہی کارروائیاں بھارت کے دوسرے شہروں ، مثلاً ممبئی اور کلکتہ میں بھی کی گئی ہیں جہاں اختتام ہفتہ ہونے والے سر براہی اجلاس سے قبل مختلف تقریبات منعقد ہوئی ہیں۔
بستی سرکھشا منچ گروپ، یا سیو کالونی فورم کے سر گرم کارکن عبدل شکیل کہتے ہیں ، تزئین و آرائش کے نام پر شہر کے غریبوں کی زندگیاں تباہ کر دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گروپ20 کے لئے خرچ ہونے والی رقم ٹیکس دہندگان کی رقم ہے ۔ ہر ایک ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اسی رقم کو انہیں بے گھر کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔
دو روزہ عالمی سر براہی اجلاس تاریخی انڈیا گیٹ کی یادگار کے قریب نئی دہلی کے مرکز میں نئے تعمیر کیے گئے شاندار کنونشن اور نمائشی سنٹر میں منعقد ہو گا جس میں دنیا کے بہت سے لیڈر شرکت کریں گے ۔
گروپ 20 میں بھارت کے علاوہ 19 دولتمند ترین ملک اور یورپی یونین شامل ہیں۔ بھارت کے پاس اس وقت اس کی صدارت ہے جو بیس ارکان میں ہر سال باری کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے ۔
جولائی میں انسانی حقوق کے ایک سر گرم گروپ، کنسرنڈ کولیکٹیو، کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا کہ گروپ 20 سربراہی اجلاس کی تیاریوں کے نتیجے میں لگ بھگ تین لاکھ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا، خاص طور پر ان مضافاتی علاقوں سے جہاں غیر ملکی راہنما اور سفارت کار مختلف میٹنگز کے دوران جائیں گے ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کم از کم 25 کچی بستیوں اور بے گھر لوگوں کے متعدد نائٹ شیلٹرز کو زمیں بوس کر دیا گیا اور انہیں پارکس کی شکل دے دی گئی جب کہ حکومت بے گھر ہونے والے نئے لوگوں کو متبادل پناہ گاہیں یا جگہیں فراہم کرنے میں ناکام رہی ۔
گزشتہ ماہ ، بھارتی پولیس نے ممتاز سر گرم کارکنوں ، دانشوروں اور ان سیاستدانوں کے ایک اجلاس کو روکنے کے لیے مداخلت کی جو مودی اور ان کی حکومت کے کردار پر تنقید اور اس بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس سربراہی اجلاس سے کس کےمفادات کو فائدہ پہنچے گا ۔
SEE ALSO: بھارت میں جی 20 پر تنقیدی کانفرنس روکنے کی کوششنئی دہلی کی ایک رہائشی ،ریکھا دیوی نے ، جنہوں نے 20 اگست کے ایک اجلاس میں شرکت کی تھی ، کہا کہ میں سڑکوں پر بے گھر لوگوں کو دیکھ سکتی تھی لیکن اب بے گھر لوگوں کو سڑکوں پر رہنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
ریکھا دیوی نے جن کا گھر ایک ایسی ہی کارروائی میں ڈھا دیا گیا تھا ، کہا کہ حکام نے ان دستاویزات کو زیر غور لانے سے انکار کر دیا جو انہوں نے یہ ثبوت فراہم کرنے کے لئے دکھائے تھے کہ وہ او ر ا ن کا خاندان اسی مکان میں تقریباً ایک سو سال سے رہ رہا تھا۔
ریکھا نے مزید کہا کہ” ہر ایک ایسا برتاؤ کررہا ہے جیسے وہ اندھا ہے ۔ “ انہوں نے مزید کہا کہ ” گروپ 20 کی تقریب کے نام پر کسان، کارکن اور غریب مصیبت کا شکار ہورہے ہیں۔”
ایک اعشاریہ چار ارب آبادی کا ملک بھارت غربت کے خاتمے کی اپنی مہم مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے اگرچہ حکومت کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ اس کے لگ بھگ 135 ملین لوگ، تقریباً 10 فیصد آبادی 2016 اور 2021 کے درمیان غربت سے نکل آئی ہے ۔
بھارتی حکام کو ماضی میں بڑی تقریبات سے قبل بے گھر کیمپوں اور کچی بستیوں کا صفایا کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
2020 میں، حکومت نے اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے قبل ریاست گجرات میں عجلت میں ڈیڑھ کلومیٹر (1,640 فٹ) بلند اینٹوں کی دیوار کھڑی کی تھی جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ اسے اس لیے تعمیر کیا گیا تھا کہ 2000 سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ایک کچی آبادی والا علاقہ مہمانوں سے اوجھل رہے ۔
نئی دہلی میں 2010 کے کامن ویلتھ گیمز کے دوران بھی مسمار کرنے کی ایسی ہی کارروائیاں کی گئی تھیں۔
کچھ دکانداروں کا کہنا ہے کہ” وہ بے بس ہیں , وہ بھارت کے فخر کے لیے اپنی روزی روٹی قربان کرنے اور روزی کمانے کی خواہش کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔”
تلے ہوئے نان یا پوری اور چھولے کے ایک ٹھیلہ فروش ، شنکر لال نے بتایا کہ انہیں حکام نے تین ماہ قبل وہاں سے چلے جانے کو کہا تھا۔
آج کل گروپ 20 کے اجلاس کےمقام کے قریب نئی دہلی کی ایک مصروف سڑک کے نزدیک وہ صرف اتوار کو اپنا ٹھیلہ لگا سکتے ہیں جب پولیس سڑک پر ٹھیلہ فروشوں پر کم توجہ دیتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ زندگی گزارنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔لال نے کہا، "یہ حکومت کے اصول ہیں، اور ہم وہی کریں گے جو ہمیں کہا جائے گا۔" " ہم بھوک سے مر رہے ہیں یا نہیں ،حکومت کو اس کی پرواہ نہیں ۔"
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)