نئے عدالتی سال کا آغاز، اہم مقدمات سماعت کے لیے مقرر

فائل

سانحہ کوئٹہ از خود نوٹس کیس کی سماعت بھی منگل کو ہو گی جو کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرے گا۔

پاکستان میں نئے عدالتی سال کا آغاز ہوگیا ہے اور نئے سال کے پہلے ہی ہفتے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اہم مقدمات کی سماعت ہوگی۔

رواں ہفتے سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستیں اور سانحہ کوئٹہ سمیت اہم مقدمات زیرِ سماعت آئیں گے۔

عدالتِ عظمیٰ منگل کو پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف غیرملکی فنڈنگ سے متعلق حکمران جماعت کے رکن حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت کرے گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ عمران خان کے خلاف درخواست کی سماعت کرے گا جس میں درخواست گزار نے ان کی نااہلی کی استدعا کر رکھی ہے۔

اس کے علاوہ سانحہ کوئٹہ از خود نوٹس کیس کی سماعت بھی منگل کو ہو گی جو کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرے گا۔

کوئٹہ میں 8 اگست 2016ء کو بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر کے قتل اور اسپتال کے باہر وکلا پر خودکش حملے میں 60 سے زائد وکلا سمیت 73 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

عدالت پاناما پیپرز کیس کا نیا راؤنڈ بھی شروع ہونے والا ہے۔ منگل کو عدالت کے فیصلے کے تحت نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے صاحب زادوں کی جانب سے دائر پاناما کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِثانی درخواستوں کی سماعت ہوگی۔

پاناما لیکس کے فیصلے کے تحت پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس اعجاز الاحسن کو محمد نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالتوں میں دائر کیے جانے والے ریفرنسوں کا نگراں جج بھی مقرر کر رکھا ہے۔

سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 184 کے سب سیکشن 3 کے تحت ہی کیا تھا اس لیے اس میں کیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر نہیں کی جاسکتیں تاہم اس فیصلے پر نظرِثانی کی درخواستیں دی جاسکتی ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق آئین کے اس آرٹیکل کے تحت دیے جانے والے فیصلوں میں نظرِثانی کی درخواستیں دائر کرنے والوں کو ریلیف ملنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا وہی تین رکنی بینچ ان درخواستوں کی سماعت کرے گا جنھوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔

اس ٹیم کی رپورٹ کی روشنی میں ہی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں نواز شریف کو نااہل اور اُن کے اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالتوں میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

نواز شریف اور ان کے بچوں کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی نظرثانی کی ان درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اُن کے خلاف دائر درخواستوں میں مدعا علیہان کی طرف سے پیش کیے گئے ثبوتوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس کے وہ متقاضی تھے۔

اس کے علاوہ ان درخواستوں میں سپریم کورٹ سے 28 جولائی کا فیصلہ واپس لینے کے ساتھ ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن کو نگراں جج سے ہٹانے کی استدعا کی گئی ہے۔

ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ قانون میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ماتحت عدلیہ میں چلنے والے مقدمات کی نگرانی کے لیے اعلٰی عدلیہ کا جج مقرر کیا جائے اور یہ اقدام انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔