گزشتہ ہفتے بحیرہ روم میں ماہی گیری کی ایک کشتی ڈوبنے کے بعد امدادی کوششوں کے ذریعے کشتی میں سوار 700 سے زیادہ لوگوں میں سے صرف 104 کے لگ بھگ لوگوں کو بچایا جا سکا جبکہ 500 سے زیادہ لاپتہ لوگوں میں سے زیادہ تر کی لاشیں ملیں۔
اس المناک حادثے کے بارے میں یورپی کمشن کی صدر ارسلا وانڈر لین نے کہا، "جو ہوا وہ بہت ہولناک تھا اور اب فوری ضرورت ہے کہ ہم اس بارے میں کوئی اقدام کریں۔"
انہوں نے برسلز میں یورپی یونین کی انتظامی برانچ کے ہیڈ کوارٹرز میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترجیح تیونس میں حکام کی مدد ہونی چاہئیے جہاں سے اکثر لوگ یورپ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ تاکہ اس ملک کی معیشت بہتر ہو اور وہ تارکینِ وطن کے مسٔلے سے بہتر طور پر نمٹ سکے۔ اورضروری ہے کہ یورپی یونین کے پناہ کے ضابطوں میں اصلاحات کی جائیں جن کا طویل عرصے سے انتظار ہے اور جو آئندہ سال سے پہلے ہونے کا امکان نہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، قطع نظر اس کے کہ ڈوبنے والی کشتی لیبیا سے چلی، یا یہ کہ کسی کے مزید زندہ بچ جانے کی کوئی امید نہیں اور یہ کہ بحیرہ روم میں ہونے والا یہ بد ترین سانحہ تھا، وانڈر لین کا جواب ایک عشرے قبل ان کے پیش رو کے اقدامات کے بالکل برعکس تھا۔
اکتوبر 2013 میں اٹلی کے ایک چھوٹے جزیرے لمپا ڈوسا کی جانب سفر کرنے والے لگ بھگ 300 تارکینِ وطن ڈوب گئے۔ اور ان کے جنازوں کے قریب کھڑے یو رپی کمشن کے اس وقت کے صدر ہوزے مینوئیل بروسو نے عہد کیا تھا کہ ایسے المیے دوبارہ نہیں ہونے دیے جائیں گے۔
ان کے ایسا کہنے کے بعد اٹلی کی بحریہ نے تلاش اور بچاؤ کا ایک مشن شروع کیا مگر ایک سال بعد ہی اسے ختم کر دیا گیا کیونکہ خدشہ تھا کہ اس سے ترکِ وطن کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے بعد سے یورپی یونین نے جو بھی کوشش کی اس سے مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
اب جمعرات کو یورپی یونین کے لیڈروں کی ایک سربراہ کانفرنس میں وانڈر لین کے منصوبوں پر غور ہوگا۔
اب چونکہ آسٹریا، ہنگری اور پولینڈ جیسے ممالک، یونان، اٹلی، مالٹا یا سپین پہنچنے والے تارکینِ وطن کی یکساں تعداد کو قبول کرنے کی کسی بھی کوشش کو روک رہے ہیں تو خود بخود توجہ تارکینِ وطن کو داخل ہونے سے روکنے پر مرکوز ہو گئی ہے۔
لیکن کوسٹ گارڈ ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق اس سال جنوری سے مئی تک تارکینِ وطن کی جانب سے یورپی یونین میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی 50 ہزار 300 سے زیادہ کوششیں کی گئیں جبکہ یہ تعداد گزشتہ برس اسی عرصے کے مقابلے میں دگنی سے زیادہ ہے اور 2017 سے اب تک سب سے زیادہ ۔
وانڈر لین نے یورپی لیڈروں کے نام ایک خط میں افریقہ اور ترکی سے " غیر قانونی روانگیوں" کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تاکہ تارکینِ وطن کی سمگلنگ کو روکا جا سکے اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنایا جائے کہ لوگ ان ملکوں سے نہ نکلیں۔
انہوں نے اپنے خط میں لکھا، درست راہ پر چلنے کے لیے،"متبادل قانونی راستے تلاش کیے جائیں۔"
عموماً اس کے معنی ہیں کہ اگراقوامِ متحدہ کا پناہ گزینوں کا ادارہ اس کی سفارش کرے اور یورپ کا کوئی ملک انہیں لینے کو تیار ہو تو تارکینِ وطن کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یورپ میں آباد کر دیا جائے۔
یورپی یونین کے نئے بجٹ کے تحت شامی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے لیے ترکی کو 305 ارب یورو یا 308 ارب ڈالر دیے جائیں گے اور یوں حالیہ برسوں میں یورپی یونین کی جانب سے پناہ گزینوں کے لیے اس ملک کو دی جانے والی امداد 13 ارب یورو یا 14.2 ارب ڈالر ہو جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ امداد حاصل کرنے والے دیگر ملکوں میں تیونس، مراکش اور مصر شامل ہیں۔
وانڈر لین نے باور کروایا کہ لیبیا کو یورپی یونین کی طرف سے فروری میں دو مزید گشتی کشتیاں دی گئی تھیں اور اس نے اس سال 7ہزار5 سو 62 لوگوں کو یا تو روکا یا ان کی زندگیاں بچائیں۔
مارچ میں اقوامِ متحدہ کے حقائق معلوم کرنے والے مشن نے کہا تھا کہ لیبیا میں تارکینِ وطن کے خلاف ایسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا جو انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ مشن نے یو رپی یونین پر الزام لگایا تھا کہ اس کی پالیسیاں تارکینِ وطن کے خلاف ناروا سلوک میں مدد اور اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
تاہم یورپی یونین کی پالیسی کا مرکز یہ ہے کہ ترکِ وطن اورپناہ کے نئے معاہدے کے کام میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک سینئیر عہدیدار نے اس ہفتے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، "اس معاہدے سے آپ تارکینِ وطن کے ریلے کو تو نہیں روک سکیں گے مگر کم از کم ایک اندرونی مسئلہ ضرور حل ہو جائے گا۔"
یورپی کونسل میں شامل 27 ملکوں کے رہنماؤں کے دو روزہ اجلاس میں اصلاحات کے جس پیکیج پر گفتگو ہو گی اس کی تکمیل برسوں پر محیط ہے اور اس سے سمندر میں ڈوبنے کا سلسلہ رک نہیں پائے گا۔
لیکن اے پی کے مطابق ایک بات یہ بھی واضح ہے کہ لوگوں کو کمزور کشتیوں پر سفر سے روکنا کوئی اولین ترجیح نہیں ہے۔ مشکل میں پھنسے تارکینِ وطن کو بچانے کے لیے یورپی یونین کی بحیرہ روم میں زیادہ گشت بھی نہیں ہوتی۔ اس کے جہاز صرف ہنگامی صورت میں مدد کی پکار کا جواب دیتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت ایک ذمے داری ہے۔
( اس خبر میں مواد اے پی سے لیا گیا)