رسائی کے لنکس

پاکستان میں انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ آف پاکستان کے چیئرمین صادق سنجرانی نے دعویٰ کیا ہے کہ یونان کشتی حادثے میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے 300 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ نےایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں یونان کے ساحل پر کشتی حادثے میں 300 سے زیادہ پاکستانیوں کی موت پر انتہائی افسوس ہے۔

بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اس ہلاکت خیز حادثے کے بعد فوری کارروائی کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے انسانی اسمگلنگ کی بھی مذمت کی۔

دوسری جانب یونان کے حکام نے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی ہےکہ اس واقعے میں کتنے پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں۔

دو روز قبل یونانی حکام نے بتایا تھا کہ اس واقعے میں 78 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ البتہ یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ ان افراد کی قومیت کیا ہے کیوں کہ مرنے والوں کی لاشیں ناقابلِ شناخت ہو چکی تھیں۔ ان کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے کی جائے گی۔

یونانی حکام نے 104 افراد کو زندہ بچانے کا بھی دعویٰ کیا ہے جن میں 12 پاکستانیوں کی شناخت ہو چکی ہے۔

گزشتہ منگل کو تارکینِ وطن کی ایک بڑی کشتی یونان کے قریب بحیرہ روم میں غرقاب ہو گئی تھی جس میں اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کےمطابق 400 سے 750 افراد سوار ہونے کا اندیشہ ہے۔

یہ کشتی تارکین وطن کو لے کر لیبیا سے یورپ جا رہی تھی۔ کشتی کی منزل اٹلی کا ساحل تھا لیکن اس سے قبل ہی اس میں سوار افراد حادثے کا شکار ہو گئے۔

اٹلی نے رواں سال اب تک 55 ہزار سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو رجسٹر کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں اکثریت آئیوری کوسٹ، مصر، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والوں کی ہے۔

جس وقت کشتی کو حادثہ پیش آیا وہ یونان کے ساحل سے قریب تھی۔ یونانی حکام کا کہنا ہے کہ اس کے کوسٹل گارڈز کے چھ جہازوں، بحریہ کی ایک فریگیٹ، ایک فوجی ہوائی جہاز، فضائیہ کے ہیلی کاپٹر اور متعدد نجی بحری جہازوں نے ریسکیو کے عمل میں حصہ لیا تھا۔

کشتی میں سوار بچ جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ 20 سے 30 میٹر طویل کشتی پر 400 سے 750 افراد سوار تھے۔ کشتی میں سوار ہر فرد نے ایجنٹوں کو ساڑھے چار ہزار ڈالرز سے ساڑھے سات ہزار ڈالرز ادا کیے تھے۔

اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کےادارے نے اس واقعے کو 2015 کے بعد تارکین وطن کا سب سےبڑا سانحہ قرار دیا ہے۔

پاکستان میں اس حادثے پر پیر کو سوگ منایا جا رہا ہے جب کہ وزیرِ اعظم نے واقعے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی کمیٹی قائم کی ہے جو ایک ہفتے میں رپورٹ دے گی۔

پاکستان میں ادارے بھی متحرک ہوئے ہیں اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے ان انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے جو یونان کےحادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کو بھیجنے میں ملوث تھے۔

پاکستانی میڈیا کے مطابق ایف آئی اے نے انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ گوجرانولہ میں درج کرو ایا ہے۔

اس ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے شہر بن غازی سے ایک کشتی میں تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد قانونی دستاویزات کے بغیر اٹلی کاسفر کر رہی تھی کہ کشتی کو حادثہ پیش آ گیا۔ اس دوران یونان کے ساحلی محافظوں نے 12 پاکستانیوں کی جان بچائی۔

دوسری جانب برطانوی اخبار 'گارڈین' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانیوں کو کشتی کے بالکل نچلے حصے رکھا گیا تھا۔ اس نچلے حصے میں ہونے کے سبب حادثے میں ان افراد کا بچ پانا ناممکن تھا۔

رپورٹ کے مطابق کشتی میں صورتِ حال انتہائی خراب تھی۔ اس میں سوار افراد کے پاس پانی ختم ہو چکا تھا جب کہ حادثے سے قبل ہی چھ افراد کی موت ہو چکی تھی۔

یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ جب یہ کشتی لیبیا کے شہر بن غازی سے روانہ ہوئی تو اس کا انجن تین دن بعد خراب ہو گیا تھا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تارکین وطن کی یہ کشتی کئی دن تک سمندر میں بغیر کسی مدد کے موجود رہی۔

دوسری جانب یونانی حکام پر یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ انہوں نے حادثے کے فوری بعد مدد فراہم نہیں کی۔

یونانی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہیں مدد کے لیے کسی بھی قسم کی کال موصول نہیں ہوئی۔ البتہ غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ یونانی حکام کو کئی بار مدد کے لیے رابطے کیے گئے تھے۔

یونان میں تارکین وطن کے خلاف سخت پالیسیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔

اس احتجاج کے شرکا کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم کو پانی کی قبر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

مظاہرین کا الزام تھا کہ یونان کے کوسٹ گارڈز سمندر میں متواتر اس کشتی کی نگرانی کر رہےتھےاور جب یہ ڈوب رہی تھی تو اس کی مدد نہیں کی گئی بلکہ کئی گھنٹوں تک اسے ڈوبتے ہوئے دیکھا گیا۔

یونانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس حادثے میں بچ جانے والے افراد کو مہاجرین کے کیمپ منتقل کر رہے ہیں جہاں ان تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ جن افراد کی درخواستیں جائز ہوں گی ان پر غور کیا جائے گا جب کہ باقی افراد کو واپس ان کے ممالک ڈی پورٹ کیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG