یورپ جانے کے خواہش مند افراد کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں زندہ بچ جانے والوں میں سے 12 پاکستانیوں کی شناخت کر لی گئی ہے۔
یونان کی سمندری حدود میں بدھ کو مسافروں سے بھری کشتی الٹنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں سوار افراد کا تعلق پاکستان سمیت مختلف ملکوں سے تھا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یونان کے حکام نے بتایا ہے کہ تارکینِ وطن کی کشتی پر 400 سے زیادہ افراد سوار تھے۔ حادثے کے بعد 104 افراد کو بچا لیا گیا تھا جب کہ اب تک 78 کی لاشیں ملی ہیں۔
یونانی حکام کے مطابق لاپتا تارکینِ وطن کی تلاش کے لیے جمعے تک سرچ آپریشن جاری رہا جس کے دوران مزید کوئی شخص زندہ یا مردہ حالت میں نہیں ملا۔
سینکڑوں افراد اب بھی لاپتا ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ کشتی حادثے میں مزید کسی کے زندہ بچنے کی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والوں میں سے 12 پاکستانی ہیں البتہ فوری طور پر یہ تصدیق نہیں کی جا سکی کہ آیا ہلاک ہونے والوں میں کتنے پاکستانی شامل ہیں۔
ترجمان کے مطابق یونان میں پاکستانی سفارت خانہ کشتی پر سوار اپنے شہریوں کی شناخت کے عمل کے سلسلے میں یونانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق عینی شاہدین کا بتانا ہے کہ 20 سے 30 میٹر طویل کشتی پر 400 سے 750 افراد سوار تھے۔ تارکینِ وطن سے بھری یہ کشتی بدھ کی صبح یونان کے ساحلی علاقے پیلوس سے 50 میل دوری پر سمندر میں الٹ گئی تھی۔
یوکرین کے سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کشتی پر سوار بیشتر کا تعلق پاکستان، مصر اور شام سے ہے جب کہ حادثے میں زندہ بچ جانے والوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے اٹلی جانے کے لیے ایجنٹوں کو 4500 ڈالر ادا کیے تھے۔
حادثے میں زندہ بچ جانے والے 18 سالہ مصری نوجوان محمد سے جمعے کو ان کے بڑے بھائی فدی نے یونان کے کمالاتا پورٹ پر ملاقات کی۔
فدی حادثے کا علم ہونے پر نیدرلینڈز سے یونان کے ساحلی شہر کمالاتا پہنچے تھے۔ فدی نے بھائی سے مل کر اس کے سر کو کئی بار چوما اور کہا کہ "خدا کا شکر ہے کہ یہ محفوظ رہا۔"
کمالاتا میں قائم کیمپ کے باہر تارکینِ وطن کے لگ بھگ مزید 25 رشتہ دار جمع تھے جو موبائل فون پر اپنے پیاروں کی تصاویر دکھا کر اچھی خبر کے منتظر تھے۔
پاکستانی شہری عادل حسین اپنے بھائی کی تلاش میں پناہ گاہ کے باہر پہنچے ہیں۔ عادل نے بتایا کہ ان کا بھائی غیر قانونی طور پر لگ بھگ 12 سال تک یونان میں رہ چکا ہے جو واپس پاکستان لوٹ گیا تھا لیکن وہاں دو سال تک غربت میں زندگی گزارنے کے بعد اس نے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
عادل کے مطابق گزشتہ ہفتے انہوں نے بھائی سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ کشتی لیبیا سے نکل رہی ہے۔
اسی طرح یونان میں شامی تارکینِ وطن کی ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل انور باکری کا کہنا ہے کہ انہیں جرمنی، ترکی سمیت دیگر ممالک میں مقیم شامی افراد کی سینکڑوں فون کالز آ چکی ہیں اور وہ سمندر میں ڈوبنے والی کشتی میں سوار اپنے پیاروں کے بارے میں فکر مند ہیں۔
متاثرہ کشتی مصر سے لوگوں کو لے کر لیبیا پہنچی تھی جہاں سے 10 جون کو اس پر مزید مسافر سوار ہوئے اور پھر تارکینِ وطن کی اس کشتی نے اپنی اگلی منزل یونان کا سفر شروع کیا۔
اس خبر میں شامل بیشتر معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔