حکومت کی طرف سے بجھو ائے گئے قومی احتساب بیورو [نیب] ترمیمی آرڈیننس کی قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے منظوری دی ہے جس کے تحت اب احتساب ادارے کو یہ اختیار دوبارہ مل گیا ہے کہ وہ انکوائری کے دوران کسی بھی ملزم کو گرفتار کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ترمیم کے تحت ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی مدت 14 روز سے بڑھا کر 30 دن کردی گئی ہے جو کہ مزید 60 روز تک بڑھائی جاسکتی ہے۔
یہ ترمیم ایسے وقت میں لائی گئی ہے جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بیگم توشہ خانہ سمیت متعدد الزامات میں نیب کی تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔
اگرچہ حکومت نے اس قانون میں تبدیلی لانے کی وضاحت نہیں کی تاہم خیال ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ اس قانون کے باعث عمران خان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
موجودہ حکومت ہی گزشتہ سال پارلیمنٹ کے ذریعے نیب قانون میں ترامیم لائی تھی اور ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی مدت 90 روز سے کم کر کے 14 روز کی تھی۔ اس کے علاوہ انکوائری کے دوران گرفتاری کے اختیار کو ختم کرکے اسے کچھ شرائط کے ساتھ تحقیقات کے مرحلے میں دیا گیا تھا۔ عمران خان نے نیب کی ان ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلینج کررکھا ہے۔
SEE ALSO: عمران خان کا نیب ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلاننیب کا قانون پاکستان میں ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے اور حالیہ ترمیم کے بعد یہ دوبارہ سے خبروں میں ہے۔
نیب قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ ترامیم نیب کو دوبارہ سے لامحدود اختیارات دیتی ہیں جس کا مقصد احتساب ادارے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا دکھائی دیتا ہے۔
نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ حکومت نے اس صدارتی حکم نامے کے ذریعے گزشتہ سال پارلیمنٹ کے ذریعے نیب قانون میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس کر دیا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں راتوں رات آرڈیننس کے ذریعے نیب قانون میں تبدیلی بدنیتی ظاہر کرتی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نیب کو دوبارہ سے سیاسی انجنیئرنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب نیب کو الیکشن کے عمل میں کھلی چھوٹ حاصل ہو گی اور سیاسی حریفوں کو محض الزامات کی بنیاد پر گرفتار کیا جاسکے گا۔
SEE ALSO: عمران خان کے خلاف زیرِ تفتیش 'القادر ٹرسٹ' کیس کیا ہے؟عمران شفیق کہتے ہیں کہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان ترامیم کا ہدف عمران خان اور حزب اختلاف کے رہنما بنیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومتی رہنما پرانی ترامیم کے تحت اپنے مقدمات کو ختم کروا چکے ہیں اور اب وہ قانون کو دوبارہ اسی حالت میں لاکر حزب اختلاف کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ سابقہ حکومت میں ان کے خلاف استعمال ہوئے۔
خیال رہے کہ حکومتی رہنما ماضی میں نیب قانون کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
نیب قانون کے ماہر راجا انعام امین منہاس کہتے ہیں کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے کی گئی اپنی ہی ترامیم کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے واپس کر دیا ہے اور اب یہ حکومت سے پوچھا جانا چاہیئے کہ پہلے کی گئی ترامیم درست تھیں یا ابھی لایا جانے والا صدارتی آرڈنینس۔
SEE ALSO: ’چیئرمین نیب عہدے پر رہنے کے اہل نہیں‘, عمران خان کا سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوعانہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انکوائری کے مرحلے پر نیب کو گرفتاری کا اختیار دینا کسی صورت درست نہیں کیونکہ مالیاتی جرائم میں ملزم کا تحویل میں ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے لیے دستاویزی شواہد درکار ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال نیب قانون میں ترامیم پارلیمنٹ میں بحث کے بعد لائی گئیں تھیں اور اب صدارتی حکم نامے کے اچانک آنے سے لگتا ہے کہ بظاہر اس کے پیچھے مقاصد سیاسی ہیں۔
راجا انعام نے کہا کہ یہ سوال اٹھے گا کہ حکومت اس موقع پر نیب کے قانون میں تبدیلی کیوں لائی اور ریمانڈ کی مدت کو 14 دن سے بڑھا کر 30 دن کیوں کیا گیا جب کہ یہی حکومتی رہنما کہتے رہے ہیں کہ نیب کے ریمانڈ کی مدت کو کم ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس احتساب ادارے کو بہت لامحدود اختیارات دیتا ہے جن کا ماضی میں بے دریغ غلط استعمال ہوا اور پارلیمنٹ سے گزشتہ سال ہونے والی قانون سازی کے ذریعے اسے کسی حد تک حدود میں لانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صدارتی حکم نامے ک سے نیب کو دوبارہ سے لامحدود اختیارات حاصل ہو گئے ہیں جسے گزشتہ حکومت بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی اور موجودہ حکومت بھی استعمال کرے گی۔
گزشتہ برس اکتوبر میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے نیب ترمیمی بل 2022 کے بعد اب نیب قوانین میں ترامیم کے بعد نیب 50 کروڑ روپے سے کم خردبرد کے کیسوں کی تحقیقات نہیں کرے گا اور چیئرمین نیب فردِ جرم عائد ہونے سے قبل ریفرنس ختم کرنے کی تجویز کر سکیں گے۔
ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جائے گی جب کہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت سے رجوع کر سکے۔
اِسی طرح نیب قانون کے سیکشن 16 کے تحت جہاں جرم ہو گا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ ترامیم کے تحت نیب کو عدالتِ عالیہ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔