نمونیا اور ہیضہ دنیا بھر میں چھوٹے بچوں میں اموات کا ایک بڑا سبب ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی اموات میں سے ایک تہائی اموات انہی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔
واشنگٹن —
عالمی ادارہ ِ صحت اور اقوام ِ متحدہ کے چلدڑنز فنڈ نے دنیا میں بچوں میں نمونیے اور ہیضے کی وباء کو 2025ء تک ختم کرنے کے لیے ایک نیا پلان وضع کیا ہے۔ اس نئے پلان سے ہر سال دنیا بھر میں بیس لاکھ بچوں کی جان بچانا ممکن ہو سکے گا۔
نمونیا اور ہیضہ دنیا بھر میں چھوٹے بچوں میں اموات کا ایک بڑا سبب ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی اموات میں سے ایک تہائی اموات انہی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔ جبکہ نمونیا اور ہیضے کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں بچوں کی بیس لاکھ اموات میں سے نوے فیصد اموات افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں ہوتی ہیں۔
صحت سے متعلق تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے لیکن چونکہ بہت سے ممالک میں ان بیماریوں کے سد ِ باب کے لیے کوششیں نہں کی جا رہیں اسی لیے وہاں پر بڑی تعداد میں بچے ان بیماریوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔
عالمی ادارہ ِ صحت کی الزبتھ میسن شعبہ ِ زچہ بچہ اور بچوں کی نشونما کی سربراہ ہیں۔ الزبتھ میسن کہتی ہیں کہ نمونیا اور ہیضے کا علاج الگ الگ کیا جاتا ہے لیکن بنگلہ دیش، ایتھوپیا اور تنزانیہ سے ملنے والے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں بیماریوں کا علاج بیک وقت کرنا ممکن ہے کیونکہ ان دونوں بیماریوں کے پھیلنے کی بنیادی وجوہات بظاہر ایک سی ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’بہت سے اقدامات سے ان بیماریوں کو پھیلنے سے بچانا ممکن ہے جیسا کہ ماں کا دودھ ، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو اچھی اور صحت بخش غذا دینے، ہاتھ دھونے، پینے کا صاف پانی، ماحولیاتی آلودگی میں کمی، وٹامنز اور ویکسین لینے سے ان دو بیماریوں کو کنٹرول کرنا یا روکنا ممکن ہے۔‘‘
لیکن ترقی پذیر ممالک کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ نمونیے اور ہیضے کی ویکسین مہنگی ہیں اور ان کی قوت ِ خرید میں نہیں آتیں۔ گاوی الائنس ایک ایسی تنظیم ہے جو ان ترقی پذیر ممالک میں ویکسینز مہیا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور فنڈز مہیا کرتی ہے۔
اب تک گاوی الائنس نے چوبیس غریب ملکوں میں ایک کروڑ تیس لاکھ بچوں کو نمونیے سے بچاؤ کے لیے ویکسینز جبکہ تیرہ ممالک میں پچاس لاکھ بچوں کو ہیضے سے بچاؤ کے لیے ویکسینز مہیا کی ہیں۔
ڈاکٹر میسن کا کہنا ہے اگلے دس سالوں میں اس نئی حکمت ِ عملی پر عمل کرنے کے لیے چھ ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔ ڈاکٹر میسن کے مطابق ہر سال چھ سو ملین ڈالر کی رقم درکار ہوگی جو کہ دنیا بھر میں بچوں کو بچانے سے زیادہ اہم نہیں۔
نمونیا اور ہیضہ دنیا بھر میں چھوٹے بچوں میں اموات کا ایک بڑا سبب ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی اموات میں سے ایک تہائی اموات انہی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔ جبکہ نمونیا اور ہیضے کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں بچوں کی بیس لاکھ اموات میں سے نوے فیصد اموات افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں ہوتی ہیں۔
صحت سے متعلق تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے لیکن چونکہ بہت سے ممالک میں ان بیماریوں کے سد ِ باب کے لیے کوششیں نہں کی جا رہیں اسی لیے وہاں پر بڑی تعداد میں بچے ان بیماریوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔
عالمی ادارہ ِ صحت کی الزبتھ میسن شعبہ ِ زچہ بچہ اور بچوں کی نشونما کی سربراہ ہیں۔ الزبتھ میسن کہتی ہیں کہ نمونیا اور ہیضے کا علاج الگ الگ کیا جاتا ہے لیکن بنگلہ دیش، ایتھوپیا اور تنزانیہ سے ملنے والے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں بیماریوں کا علاج بیک وقت کرنا ممکن ہے کیونکہ ان دونوں بیماریوں کے پھیلنے کی بنیادی وجوہات بظاہر ایک سی ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’بہت سے اقدامات سے ان بیماریوں کو پھیلنے سے بچانا ممکن ہے جیسا کہ ماں کا دودھ ، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو اچھی اور صحت بخش غذا دینے، ہاتھ دھونے، پینے کا صاف پانی، ماحولیاتی آلودگی میں کمی، وٹامنز اور ویکسین لینے سے ان دو بیماریوں کو کنٹرول کرنا یا روکنا ممکن ہے۔‘‘
لیکن ترقی پذیر ممالک کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ نمونیے اور ہیضے کی ویکسین مہنگی ہیں اور ان کی قوت ِ خرید میں نہیں آتیں۔ گاوی الائنس ایک ایسی تنظیم ہے جو ان ترقی پذیر ممالک میں ویکسینز مہیا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور فنڈز مہیا کرتی ہے۔
اب تک گاوی الائنس نے چوبیس غریب ملکوں میں ایک کروڑ تیس لاکھ بچوں کو نمونیے سے بچاؤ کے لیے ویکسینز جبکہ تیرہ ممالک میں پچاس لاکھ بچوں کو ہیضے سے بچاؤ کے لیے ویکسینز مہیا کی ہیں۔
ڈاکٹر میسن کا کہنا ہے اگلے دس سالوں میں اس نئی حکمت ِ عملی پر عمل کرنے کے لیے چھ ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔ ڈاکٹر میسن کے مطابق ہر سال چھ سو ملین ڈالر کی رقم درکار ہوگی جو کہ دنیا بھر میں بچوں کو بچانے سے زیادہ اہم نہیں۔