کیا آئندہ برسوں میں دنیالیب میں تیار کردہ گوشت کےبرگرز اور تکے کبابوں سے لطف اندوز ہو رہی ہوگی؟

شیف میکا لیون میامی میں جمعرات، 27 جون، 2024 کو کیلیفورنیا میں قائم اپسائیڈ فوڈز "لیب سے تیار کردہ" گوشت کے لیے پاپ اپ کے ساتھ۔۔ مینوفیکچرر نے ایک پارٹی کی میزبانی کی، جس میں میامی کے وائن ووڈ محلے میں چھت پر شرکا کو چکن ٹوسٹاڈا پیش کیا گیا۔ (فوٹو

  • 2050 میں انسانی آبادی 9 ارب 75 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی جس سے خوراک کی 47 فی صد اضافی خوراک کی ضرورت ہو گی۔
  • خوراک کے لیے ہر سال 92 ارب سے زیادہ جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کے پالنے پر اربوں ڈالر اور لاکھوں ایکڑ زمین کا استعمال ہوتی ہے۔
  • بڑھتی ہوئی آبادی، ناموافق موسمی حالات اور زمین کی گھٹتی ہوئی پیدواری صلاحیت کی بنا پر انسان کی غذائی ضروریات پوری کرنا ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
  • خوراک کے غیر رواتی ذرائع ڈھونڈنا وقت کا تقاضا بن گیا ہے۔
  • انسان زیادہ تر پروٹین گوشت سے حاصل کرتا ہے، جب کہ سب سے زیادہ پروٹین ٹڈیوں میں ہوتے ہیں۔ انہیں پالنا اور پروٹین حاصل کرنا نسبتاً آسان ہے۔
  • لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت مستقبل کی انسانی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ممکن ہے کہ آج آپ کو یہ بات عجیب لگے کہ آنے والے برسوں میں ہماری خوراک اور کھانے پینے کی ترجیحات بدل جائیں گی اور ہم بڑی رغبت سے ٹڈیوں سے تیار کردہ پکوان، لیبارٹری میں بننے والے چکن اور بیف کے کباب اور سبزیوں سے بنے گوشت کی ڈشز کھا رہے ہوں گے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی آبادی جو اس وقت 8 ارب سے کچھ زیادہ ہے، سن 2050 میں 9 ارب 75 کروڑ سے بڑھ جائے گی جس کے لیے تقریباً 47 فی صد اضافی خوراک کی ضرورت ہو گی۔اس مانگ کو روایتی وسائل سے پورا کرنا مشکل ہو گا۔

انسان اپنی خوراک کے لیے زیادہ تر زراعت اور حیوانات پر انحصار کرتا ہے۔ آبادی میں اضافے اور موسمی حالات کے باعث قابل کاشت رقبہ کم ہو رہا ہے، جب کہ حیوانات کوپالنے اور ان کی خوراک کے لیے بھی زمین درکار ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑے جانور بڑی مقدار میں میتھین اور دوسری کاربن گیسیں خارج کرتے ہیں جو گلوبل وارمنگ میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔

ٹڈیاں: پروٹین کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ

ٹڈی دل۔ فائل فوٹو

ایک بالغ انسان کو روزانہ تقریباً 50 گرام پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم اپنی ضرورت کا زیادہ تر پروٹین گوشت سے حاصل کرتے ہیں۔ شاید آپ کے لیے یہ بات دلچسپ ہو کہ سب سے زیادہ پروٹین ٹڈی میں پایا جاتا ہے اور اس کے کل وزن کا 65 فی صد حصہ پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔

ٹڈیوں کی افزائش اورانہیں خشک کرنے کا سب سے بڑا پلانٹ کینیڈا میں ہے جہاں سالانہ دو ارب ٹڈیاں پیدا اور پراسسز کی جاتی ہیں۔ اس وقت ٹڈیوں کا زیادہ تر استعمال پالتو جانوروں کی خوراک اور کئی ادویات میں کیا جا رہا ہے، تاہم ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی علاقے میں اس کی ڈشیز تیار کر کے بڑی رغبت سے کھائی جاتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں جھینگوں کی طرح ان کی ڈشز بھی دنیا بھر میں عام ہو جائیں گی۔

پودوں سے گوشت کی تیاری

SEE ALSO: سنگاپور: لیب میں تیار کردہ مرغی کے 'گوشت' کی منظوری

چند برس پہلے آپ نے پودوں سے گوشت تیار کرنے کی خبریں سنی ہوں گی۔ اب یہ گوشت امریکہ سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کی مارکیٹوں میں مل رہا ہے۔ ان کی تیاری میں مختلف اجناس، سبزیاں اور پھل استعمال کیے جاتے ہیں اور ان سے ایسے اجزا حاصل کیے جاتے ہیں جو گوشت میں موجود ہوتے ہیں۔

اس کے بعد انہیں لبیارٹری میں اسی تناسب سے ملا کر گوشت کے ٹکڑوں کی شکل دی جاتی ہے۔اس وقت یہ گوشت چکن، بیف اور مچھلی کی ساخت، ٹیکسچر اور ذائقوں میں دستیاب ہے۔ کئی فاسٹ فوڈ چینز پر ان کے برگر مل جاتے ہیں۔ امریکہ میں پودوں سے گوشت تیار کرنے والی دو بڑی فیکٹریاں ’امپاسیبل میٹ‘ (Impossible meat)اور ’بیانڈمیٹ‘(Beyond meat) ہیں۔

پودوں سے بنائے جانے والے گوشت میں اگرچہ گوشت میں پائے جانے والے اجزا موجود ہوتے ہیں اور ذائقہ بھی گوشت کے قریب تر ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پھر بھی وہ کھانے میں اصل گوشت جیسا نہیں ہوتا۔ لیبارٹری میں جانور کے خلیے سے حقیقی گوشت تیار کرنے کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ غالباً نقلی گوشت کا ذائقہ اور اس کا ٹیکسچر بھی ہے۔

لیبارٹری میں گوشت تیار کرنے کا عمل

امپاسیبل میٹ کے تیار کردہ برگر

لیبارٹری میں گوشت تیار کرنے کا عمل اگرچہ 2013 میں شروع ہوا لیکن اس بارے میں سائنس دانوں نے 1990 کے عشرے میں ہی سوچنا شروع کر دیا تھا۔

2013 وہ پہلا سال تھا جب ایک پریس کانفرنس میں لیبارٹری میں تیار کیے ہوئے گوشت کا برگر کھانے کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ گوشت گائے کے ایک خلیے (Cell) کی لیبارٹری میں افزائش کر کے تیار کیا گیا تھا۔

اس کی تیاری میں جو طریقہ استعمال ہوا، اس کے ذریعے اب چکن، جھینگے، ٹونا اور تقریباً سبھی جانداروں کے گوشت تیار کیے جا سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ برگر میں رکھے گئے گوشت کے چھوٹے سے ٹکڑے کی تیاری پر اس وقت تقریباً ڈھائی لاکھ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔

SEE ALSO: روسی خلا باز کا خلا میں مصنوعی گوشت بنانے کا کامیاب تجریہ

لیبارٹری میں جس بھی جانور کا گوشت بنانا ہو، اس کے خلیے حاصل کیے جاتے ہیں اور انہیں ایک غذائیت بھرے ماحول میں رکھا جاتا ہے جہاں وہ قدرتی طریقے سے نشوونما پاتے ہیں۔ اس طریقے بنایا گیا گوشت نہ صرف حقیقی گوشت جیسا دکھائی دیتا ہے بلکہ اس کے اجزا، ٹیکسچر، بناوٹ اور ذائقہ بھی اصلی گوشت جیسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کسی جانور کے جسم کا گوشت نہیں ہوتا۔

لیب میں صرف گوشت ہی نہیں بلکہ دودھ، اون اور کھال بھی تیار کی جا سکتی ہے۔ اور یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ لیبارٹری میں گوشت یا جانورں سے حاصل ہونے والی دیگر چیزوں کی تیاری کے لیے ان کے خلیے بار بار حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ ایک بارخلیے حاصل کیے جانے کے بعد اسی کو لیبارٹری میں بار بار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس صنعت کے آگے بڑھنے سے انسانی معاشرہ نمایاں طور پر تبدیل ہو جائے گا۔

گوشت تیار کرنے کی یہ جدید فوڈ ٹیکنالوجی، صحت، ماحول اور اخلاقی وجوہات کی بنا پر اپنے اندر سائنس دانوں سمیت بہت سے لوگوں کے لیے کشش رکھتی ہے۔

اسرائیل میں جانوروں کے خلیے سے گوشت بنانے کے ایک پلانٹ میں ایک ماہر لیب میں کام کر رہی ہے۔ 13 فروری 2023

ایک اندازے کے مطابق 150 سے زیادہ کمپنیاں لیبارٹری میں گوشت بنانے کے مختلف پراجیکٹس پر کام کر رہی ہیں۔ تین ملک سنگاپور، امریکہ اور اسرائیل، لیبارٹری میں گوشت تیار اور فروخت کرنے کی منظوری دے چکے ہیں۔ جب کہ برطانیہ اجازت نامہ جاری کرنے والا یورپ کا پہلا اور دنیا کا چوتھا ملک بن گیا ہے، تاہم برطانیہ نے فی الحال اس گوشت کو پالتو جانوروں کی خوراک کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے لیبارٹری کے گوشت کو قابل ستائش عمل قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر سال انسانی خوراک کے لیےدنیا بھر 75 ارب مرغیاں ذبح کر دی جاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال خوراک کے لیے دنیا بھر میں زمین پر رہنے والے 92 ارب سے زیادہ جانوروں کے گلے کاٹے جاتے ہیں، جب کہ سمندر سے پکڑے جانے والے جاندار گنتی سے باہر ہیں۔

دنیا بھر میں ہر سال 75 ارب سے زیادہ مرغیاں ذبح کی جاتی ہیں۔

اربوں جانوروں کی جاں بخشی

لیبارٹری کے گوشت کی طرف جانے سے ہر سال اربوں جانداروں کی جان بخشی ہو سکے گی۔ بات صرف یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ خوراک کے لیے پالے جانے والے جانداروں پر ہر سال کھربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے لاکھوں ایکٹر رقبے پر فارم بنائے جاتے ہیں۔ ان کی خوراک اور چارہ کاشت کرنے کے لیے مزید لاکھوں ایکڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قابل کاشت رقبے کا تقریباً 70 فی صد جانوروں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔جب انسان لیبارٹری کے گوشت کی طرف چلا جائے گا تو اربوں جانور پالنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور اس طرح لاکھوں ایکڑ بچنے والی زمین پر اجناس ، فصلوں اور باغات کے لیے استعمال کی جا سکے گی۔

اس کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ لیبارٹری کے گوشت کے استعمال سے زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکتی ہے کیونکہ گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کا تقریباً 17 فی صد حصہ مویشی پیدا کرتے ہیں۔

دنیا میں کئی مہلک وباؤں کا سبب جانور بنتے ہیں۔ جانوروں کی تعداد پر کنٹرول سے متعدد وباؤں پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔

جانور کے خلیے سے گوشت بنانے کے ایک پلانٹ میں گوشت تیار کیا جا رہا ہے۔

لیبارٹری کا گوشت چونکہ حفظان صحت کے ماحول میں تیار ہو گا اس لیے وہ صحت کے لیے جانوروں سے حاصل کردہ گوشت سے کہیں زیادہ محفوظ ہو گا۔

لیبارٹری کے گوشت کا استعمال عام ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ جس کی ایک وجہ تو اس کی تیاری پر اٹھنے والے کثیر اخراجات ہیں۔ فی الحال وہ روایتی گوشت سے تقریباً دس گنا مہنگا ہے۔ تاہم پیدوار بڑھنے اور ٹیکنالوجی میں بہتری آنے سے چند برسوں میں اس کی قیمت روایتی گوشت کے برابر آنے کا امکان ہے۔

لیبارٹری کے گوشت کے برگر اور دیگر پکوان ابھی صرف سنگاپور کے ریستورانوں میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ سنگاپور کی اسلامک ریلیجس کونسل نے اس سال لیب گوشت کو حلال قرار دے دیا ہے جس سے اس ملک میں اس کے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

امریکہ سمیت دوسرے ملکوں میں انہیں قبولیت حاصل کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ امریکہ میں ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آر سی سینٹر فار پبلک افیئر ریسرچ کے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ تقریباً 50 فی صد امریکی لیبارٹری کا گوشت کھانے سے ہچکچاتے ہیں۔

لیب کا گوشت چکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کا ذائقہ اچھا ہے لیکن اصلی جانور کا گوشت زیادہ مزیدار ہوتا ہے۔ گڈ فوڈ انسٹی ٹیوٹ کے صدر بروس فریڈرک کہتے ہیں کہ جب تک لیبارٹری کے گوشت کی قیمت اور ذائقہ روایتی گوشت جیسا نہیں ہو جائے گا، ہمارے لیے چیلنج برقرار رہے گا۔