خبر رساں ادارے اور پریس کی آزادی کے گروپ اسرائیل میں قائم ایک تنظیم کی اس رپورٹ کو غلط اور خطرناک قرار دے رہے ہیں جس میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا کچھ فری لانس فوٹو جرنلسٹ کو 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کا پہلے سے علم تھا؟
اسرائیل کےایک فلاحی ادارے، آنسٹ رپورٹنگ(Honest Reporting)نے، جو اسرائیل کے خلاف مبینہ تعصب کے لیے میڈیا کوریج کی نگرانی کرتا ہے، بدھ کو ایک رپورٹ جاری کی تھی . اس رپورٹ میں سوال کیا گیا کہ آیا غزہ میں مقیم کئی فری لانس فوٹو جرنلسٹس اس حملے کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے؟ رپورٹ میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ کچھ فری لانس جرنلسٹس نے اس میں حصہ لیا تھا۔
اس نے سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں شیئر کیں جن میں ایک صحافی کو ٹینک کے ساتھ کھڑا دکھایا گیا۔ ایک اور نامعلوم تاریخ کی تصویر میں اسی صحافی کو حماس کے ایک ایسےرہنما کے ساتھ مسکراتے دکھایا گیا ہے جواسرائیل کے مطابق 7 اکتوبر کے حملے کاماسٹر مائنڈ تھا۔
اسرائیلی ویب سائٹ نے جن فوٹو جرنلسٹوں کا نام دیا ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو خبر رساں اداروں "ایسوسی ایٹڈ پریس" اور "رائٹرز" جبکہ کچھ اخبار نیویارک ٹائمز کے لیے کام کرتے ہیں۔
خبر رساں اداروں اور آزادی صحافت کے گروپوں نے تو اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن اسرائیلی ادارے کے دعوے سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کرنے لگے جن میں کچھ اسرائیلی سیاست دان اور عہدہ دار بھی شامل تھے۔
یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کے لئے کچھ خبر رساں اداروں اور آزادی صحافت کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو اس سےزیادہ خطرہ لاحق ہے۔
اے پی، رائٹرز اور نیویارک ٹائمز نے ایسے تمام بیانات کی تردید کی ہے کہ انہیں حماس کے حملے کے بارے میں کوئی پیشگی علم تھا۔
'کوئی ثبوت نہیں ہے'
رپورٹ میں جن فوٹو جرنلسٹوں کا نام دیا گیا ہے ان میں حسن اصلاحیہ، یوسف مسعود، علی محمود اور حاتم علی شامل ہیں، جو اس دن اے پی کے لیے کام کر رہے تھے۔اصلاحیہ نے ماضی میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے لیے بھی کام کیا ہے، اور مسعود نے نیویارک ٹائمز کے لیے بھی کام کیا ہے۔ محمد فائق ابو مصطفیٰ اور یاسر قدیح کا نام بھی لیا گیا، جو رائٹرز کے لیے فری لانس کام کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے نے ایک بیان میں کہا کہ رائٹرز کی شائع کردہ تصاویر حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر راکٹ فائر کیے جانے کے دو گھنٹے بعد اور اسرائیل کی جانب سے مسلح افراد کے سرحد پار کرنے کے اعلان کے 45 منٹ سے زیادہ بعد لی گئی تھیں۔
دریں اثنا، اے پی نے ایک بیان میں کہا کہ نیوز آؤٹ لیٹ کو کسی بھی فری لانس سے موصول ہونے والی پہلی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حملے شروع ہونے کے ایک گھنٹہ سے زیادہ بعد لی گئی تھیں۔
ایجنسی نے بغیر کسی وضاحت کے کہا کہ وہ اصلاحیہ کے ساتھ مزید کام نہیں کر رہی تھی، جنہیں ’آنسٹ رپورٹنگ‘ کی طرف سے دوبارہ پیش کی گئی تصویر میں حماس کے غزہ کے رہنما یحییٰ سنوار کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے بیان میں کہا، " ’آنسٹ رپورٹنگ‘نے یوسف مسعود سمیت غزہ میں کام کرنے والے کئی فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے بارے میں غیر واضح الزامات لگائے ہیں۔" حملے کے دن مسعود ٹائمز کے لیے کام نہیں کر رہے تھے، لیکن اخبار نے کہا، "انہوں نے ہمارے لیے اہم کام کیا ہے۔"
ٹائمز نے کہا، " ’آنسٹ رپورٹنگ‘ کے الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ہے،" ٹائمز نے مزید کہا، "ان کے کام کے بارے میں ہمارے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ (مسعود) وہی کر رہے تھے جو فوٹو جرنلسٹ ہمیشہ بڑ ی خبروں کے سامنے آنے کے بعد کرتے ہیں، یعنی سانحے کو سامنے آنے کے دوران دستاویز کرنا۔ "
SEE ALSO: اسرائیلی شہری: فولادی باڑ سے ہم خود کو محفوظ سمجھتے تھے، لیکن وہ ہمارا وہم تھا’آنسٹ رپورٹنگ کے آرٹیکل کو سو شل میڈیا پلیٹ فارم X پر ہزاروں آراء اور ری ٹوئٹ موصول ہوئے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "یہ صحافی انسانیت کے خلاف جرائم میں شامل تھے؛ ان کے اقدام پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی تھے۔"
آنسٹ رپورٹنگ کا صحافیوں پر مجرمانہ کارروائی میں شامل ہونے کا الزام
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، آنسٹ رپورٹنگ کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر سائمن پلوسکر نے اس رپورٹ کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ فوٹو جرنلسٹ شاید جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دستاویز کرنے کے لیے اپنا کام کر رہے ہوں گے، "سوائے اس حقیقت کے کہ بنیادی طور پر وہ ایک مجرمانہ کارروائی میں شامل ہوئے تھے۔"
پلوسکر نے کہا کہ ان کے خیال میں صحافیوں کا حماس کے حملے کی کوریج کے لیے سرحد پار کرنا ایک مجرمانہ عمل تھا۔
جب ان پر رپورٹ کےدعوؤں کو ثابت کرنے کے لیے شواہد کی بظاہر کمی کے حوالے سے دباؤ ڈالا گیا، تو پلوسکر نے کہا، "بالکل اسی وجہ سےہم نےمختلف سوالات اٹھائے، کیونکہ ہم خود جواب تلاش کر رہے ہیں۔"
ادارتی ڈائریکٹر نے کہا کہ آنسٹ رپورٹنگ نے اس اسٹوری پر ایک دن کام کیا تھااور ان میں سےکسی بھی فوٹو جرنلسٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جن کا رپورٹ میں نام لیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ صحافیوں کو بدنام کر سکتی ہے۔ غیر مصدقہ دعوؤں کی دور تک پہنچ کو دیکھتے ہوئے میڈیا کے وکیلوں نے خبردار کیا تھا کہ اسے صحافیوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پوئنٹر انسٹی ٹیوٹ کی سینئر نائب صدر کیلی میک برائیڈ نے وی او اے کو بتایا، "یہ خاص طور پر اشتعال انگیزہے، خاص طور پر اس لیے کہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اسے درست ثابت کرنے کے لیے بہت کم کوشش کی ہے۔"
ایک طرف جب پلوسکر نے سرحد پار کرنے والے فوٹو جرنلسٹوں کو دراندازی میں حصہ لینے والوں کے طور پر نمایاں کیا، خبر رساں اداروں اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ رپورٹرز صرف اپنا کام کر رہے تھے۔
نور عدیہ نے، جو کہ ایک فلسطینی سیاسی تجزیہ کار ہیں، رملہ سے وی او اے کو بتایا۔"صحافیوں نے وہی کیا جو صحافی کرتے ہیں۔ وہ کہانی کے لیےگئے۔"
دی ٹائمز نے اپنے بیان میں کہا کہ"فرسٹ ہینڈ عینی شواہد فراہم کرنے اور اہم خبروں کو دستاویز کرنے کے لیے خطرے میں کود پڑنا فوٹو جرنلسٹوں کا کام ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا ہےکہ کسی جنگ کے وقت یہ آزاد پریس کا لازمی کردار ہے۔
SEE ALSO: امن والے خطوں میں کون سے ممالک صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہیں؟آلسٹ رپورٹنگ کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے اپنے بیان میں، ٹائمز نے کہا کہ اسے یہ خدشات ہیں کہ "غیر مصدقہ الزامات اور فری لانسرز کو دھمکیاں انہیں خطرے میں ڈالتی ہیں اور عوامی مفاد میں کئے جانے والے ان کے کام کو نقصان پہنچاتی ہیں۔"
آنسٹ رپورٹنگ کے دعوؤں پر اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے ردعمل کے علاوہ، اسرائیل کی پارلیمنٹ کنیسٹ کے رکن ڈینی ڈینن نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم، X پر ان فوٹو جرنلسٹس کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
سی پی جے کی صدر جوڈی گنزبرگ نےاس سے قبل وی او اے کو بتایا تھا کہ اب تک دستاویز کیے جانے والے تنازعات میں یہ صحافیوں کے لیے سب سے ہلاکت خیز رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحافی شہری ہیں، ہدف نہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہم صحافیوں پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ تنازعہ میں ہماری آنکھ اور کان بنیں تاکہ ہم بین الاقوامی برادری کے طور پر جان سکیں کہ کیا ہو رہا ہے۔"
وائس آف امریکہ کے لیام اسکاٹ کی رپورٹ۔