امریکی سپریم کورٹ میں اسقاطِ حمل کی اجازت سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی خبروں کے ساتھ ہی نہ صرف خواتین کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ابارشن کےموجودہ طریقہ کار کے متبادل کی تلاش بھی شروع ہو گئی ہے۔
اسی کوشش میں ساؤتھ ڈیکوٹا کی ایک 32 سالہ خاتون کو دو مرتبہ دیگر ریاستوں کا سفر کرنا پڑا جبکہ انہیں نہ صرف برفانی راستوں بلکہ مختلف ریاستوں کے گوں نا گوں قوانین کا بھی سامنا تھا۔
اس مشکل کا سامنا مزید خواتین کو بھی ہو سکتا ہے اگر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی مبینہ مسودے میں افشا ہونے والی یہ بات درست ثابت ہوئی کہ امریکی عدالتِ عظمیٰ 'رو بمقابلہ ویڈ 'نامی فیصلے کو منسوخ کر کے ابارشن کا حق ختم کردے گی اور ریاستوں کو یہ اختیار دے دے گی کہ وہ چاہیں تو اسقاطِ حمل پر پابندی عائد کردیں۔
ایسے میں ابارشن کے لیے خواتین کو ڈاک سے اسقاطِ حمل کی گولیاں منگوانا پڑیں گی، اسی خاتون کی طرح جنہوں نے اپنی فیملی کی سیکیورٹی کے ڈر سے اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ زیادہ خطرے والے حمل کے اسقاط سے ان کی جان بچ گئی اور وہ اب اپنے باقی دو بچوں کی دیکھ بھال کے قابل ہیں۔
لیکن اسقاطِ حمل کے مخالف سرگرم کارکنوں اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ ان کا اگلا قدم ریاست پار کے یہ سفر، دوردراز ڈاکٹروں کی مدد اور اسقاطِ حمل کی گولیوں کی ترسیل بند کرنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پروفیسر میری زیگلر، فلوریڈا سٹیٹ یونیورسٹی کالج آف لاء میں 'ری پروڈکٹو رائٹس' کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، " دواؤں کے ذریعے اسقاطِ حمل وہیں ممکن ہوگا جہاں ابارشن کی اجازت ہے اور آئندہ کی لڑائی اسی پر ہے کہ ابارشن پر پابندی کتنی مؤثر ہوتی ہے۔"
امریکہ میں ابارشن کے لیے گولیوں کے استعمال میں اضافہ سن 2000 سے ہو رہا ہے ایف ڈی اے یا فوڈ اینڈ ڈرگ نامی ادارے نے اس کی منظوری دی اور ابارشن کے حقوق کے حامی ایک تحقیقاتی گروپ، گٹمیکر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اب امریکہ میں نصف سے زیادہ ابارشن سرجری کے بجائے دوا کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ برس ایف ڈی اے نے طویل عرصے سے عائد یہ پابندی بھی ختم کر دی تھی کہ خواتین کو اسقاطِ حمل کی گولیاں ڈاک سے نہیں بلکہ ذاتی طور پر حاصل کرنا ہوں گی۔ جبکہ 19 ریاستوں میں یہ بھی پابندی ہے کہ ان گولیوں کا استعمال کسی ڈاکٹر کی موجودگی میں کیا جائے۔
لورا ہرمر، سینٹ پال منیسوٹا کے مچل ہیملن سکول آف لاء میں پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں،" اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایف ڈی اے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ابارشن میں استعمال ہونے والی دواؤں پر ضابطے لاگو کرے مگر سوال یہ ہے کہ آیا کوئی ریاست ایسی کوئی دلیل دینے میں کامیاب ہوتی ہے کہ صحتِ عامہ کی غرض سے متعلقہ دواؤں پر مزید پابندی عائد کر سکے۔"
ہر مر کہتی ہیں کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ ان دواؤں سے صحتِ عامہ کو کوئی خطرہ ہے کیونکہ یہ شہادت شائع شدہ ہے کہ ابارشن کی دوائیں مکمل طور پر محفوظ ہیں اور ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ چنانچہ اگر سپریم کورٹ 'رو بمقابلہ ویڈ' قانون ختم کرتی ہے اور ایمبریو اور فیٹس کو ایک فرد کے مکمل حقوق دیتی ہے تو پھر تمام صورتیں ختم ہو جائیں گی۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ دواؤں کی ترسیل کبھی رکتی نہیں۔
سولیبل، ابارشن کی مخالف ایک ممتاز تنظیم 'سوزن بی انتھونی لسٹ' میں سٹیٹ پالیسی کی ڈائرکٹر ہیں۔وہ کہتی ہیں یہ ضرور ہے کہ دواؤں کے ذریعے ابارشن کا معاملہ ریپبلکن قانون سازوں کے ذہن پر سوارہو گیا ہے۔
سو لیبل کا کہنا ہے،" یہ ایک نیا محاذ ہے اور ریاستیں عملدرآمد مؤثر بنانے کے طریقے تلاش کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن میں ہمیشہ یہ کہتی ہوں کہ اگر آپ کھلے دروازے سے گولیوں کی آمد بند کردیں گے تو پچھلے دروازے سے ان کی ترسیل شروع ہو جائے گی۔"