ابارشن ایسا لفظ ہے، جس پر پاکستان میں تو کیا دنیا میں کہیں بھی زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ حالانکہ اس لفظ کا تعلق حالیہ سالوں میں "میرا جسم میری مرضی" جیسے 'متنازعہ' سمجھے جانے والے نعروں اور ان کی مخالفت میں بلند ہونے والی آوازوں سے بھی پہلے دنیا کی نصف آبادی، یعنی خواتین کی صحت کے ساتھ ہے؛ جس پر ان عورتوں کے خاندان کی صحت، خوشی اور خوشحالی کا انحصار بھی ہے۔ اسقاط حمل کے خواہش مند غیر شادی شدہ افراد کو ایک منٹ کے لئے بھول جائیے اور ذرا سوچئے، کیا آپ نے پاکستان میں ایک شادی شدہ جوڑے کے طور پر کسی بھی طبی یا معاشی وجہ سے اپنے ان چاہے بچے کو دنیا میں آنےسے روکنے کے لئے محفوظ طبی سہولت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ اگر ہاں، تو آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی سہولت تلاش کرنا آسان نہیں۔ غیر محفوظ اسقاط حمل جان لے سکتا ہے۔ کوکھ میں اولاد کی بار آوری کا کام قدرت نے عورت کو سونپا ہے، اس لئے اسقاط حمل کا غیر محفوظ راستہ اختیار کر کے اپنی جان داو پر لگانا بھی عورت کے حصے میں آتا ہے۔ ابارشن کے موضوع پر پاکستان میں کیا صورتحال ہے اور اس کو تبدیل کرنا کیوں ضروری ہے؟، یہ موضوع اس ہفتے ہمارے شو 'عین مطابق' میں زیر گفتگو رہا۔ آپ ہمارے اس شو کو ہر پیر کی رات نو بجے وی او اے اردو کے یو ٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔
اس ہفتے کا 'عین مطابق' یو ٹیوب پر دیکھنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے۔
زیر نظر تحریر 'عین مطابق' کی میزبان ندا سمیر کی ہے۔
لڑکی کو کوئی ہسپتال کی ایمرجنسی میں چھوڑ کر فرار ہو گیا
اس سال جنوری میں ٹی وی خبروں اور سوشل میڈیا پر لاہور کے ایک ہسپتال کے CCTV کیمرے کی وڈیو وائرل ہوئی، جس میں دیکھا گیا کہ ایک نوجوان گاڑی سے ایک لڑکی کو اٹھائے ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخل ہوتا ہے اور اسے وہاں چھوڑ کر فرار ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹرز کے معائنہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ لڑکی کے جسم سے خون بہہ رہا ہے اور وہ دم توڑ چکی ہے۔ یہ لڑکی لاہور کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔
اس کے اگلے ہی ماہ لاہور ہی کا ایک اور کیس سامنے آیا جب ایک اقلیتی برادری کی لڑکی کے گھر والوں کو بتایا گیا کہ لڑکی موٹر سائیکل کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئی ہیں۔لڑکی چونکہ خاندان کے ایک جاننے والے کے ساتھ تھی، اس لئے خاندان نے اس شخص کی بات پر اعتبار کرکے اس کی تدفین کی تیاری شروع کی۔ غسل دیتے وقت لڑکی کی پھوپھی کو اس کے جسم سے رستے خون پر تشویش ہوئی اور پھر یہ ایک پولیس کیس بن گیا۔
دونوں لڑکیوں کی موت نجی طور پر حاصل کئے گئے غیر محفوظ اسقاط حمل کی وجہ سے ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر بحث ہوئی، عوام نے اخلاقی پولیس کا کردار بخوبی نبھایا۔
معاشرتی بے راہ روی، بغیر شادی کے تعلقات جیسے گناہوں پر رائے دی گئی۔ مغرب سے متاثر ہونے کے نقصانات پر تبصرے ہوئے، والدین کے اپنی اولاد پر نظر رکھنے میں ناکامی پر سوال اٹھائے گئے مگر کسی نے یہ بات نہیں کی کہ ان دونوں خواتین کے یہ اس دنیا سے جانے کے دن نہ تھے۔ پہلے کیس میں مرنے والی لڑکی کے کچھ خواب ہونگے، دوسرے کیس میں اپنی جان سے جانے والی لڑکی بھی مستقبل میں کچھ بننا چاہتی ہوگی۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ صحیح ہے یا غلط، اگر انہیں حمل ختم کرنے کی یہ سہولت قانونی طریقے سے، کسی بہتر جگہ پر، کسی ماہر کے ہاتھوں ملتی تو آج یہ دونوں زندہ ہوتیں۔
اسقاط حمل کے حوالے سے پاکستانی معاشرے میں عموماً یہ رائے پائی جاتی ہے کہ اسے وہی افراد کرواتے ہیں جو "ناجائز رشتوں" میں جڑے ہوں۔ اسی وجہ سے اس عمل کے دوران مرنے والوں سے اکثریت کو کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔
اس موضوع کو معاشرتی داغ سمجھ کر قالین تلے دبا دیا جاتا ہے
عام تصور چونکہ یہ ہے کہ اسقاط حمل "غیر شادی شدہ مراسم" کا نتیجہ ہے اس لئے ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر بھی شاید نہ ہو۔ تاہم خواتین کی صحت پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے گٹ ماکر کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسقاط حمل کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
خواتین کی تولیدی صحت پر ایک طویل عرصے سے کام کرنے والی ڈاکٹر یاسمین قاضی بھی اس بات کو مسترد کرتی ہیں کہ اسقاط حمل صرف غیر شادی شدہ خواتین غیر مطلوب زچگیوں کو ختم کرانے کے لئے کراتی ہیں۔ ان کے مطابق تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اسقاط حمل کرانے والی %97 خواتین شادی شدہ ہوتی ہیں، ان کے پہلے سے تین،چار یا پانچ بچے ہوتے ہیں اور "یہ ابارشنز وہ اپنے شوہروں کی رضامندی سے کراتی ہیں"۔
اسقاط حمل پر پاکستان میں اعدادوشمار اکٹھا کرنا نہ آسان ہے نہ ہی سرکاری ترجیح،اس لیے اس پر کوئی بڑے پیمانے کی نئی تحقیق موجود نہیں۔ اس موضوع پر سب سے تفصیلی اسٹڈی تقریباً بیس برس پہلے گٹ ماکر کی جانب سے ہی کی گئی تھی جس کے نتائج میں یہ سامنے آیا تھا کہ 2002 میں ملک میں نو لاکھ اسقاط حمل ہوئے تھے۔
چونکہ پاکستان میں اسقاط حمل غیر قانونی ہونے کی وجہ سے کوئی عورت یہ تسلیم نہیں کرتی کہ اس نے ابارشن کرایا ہے اس لئے یہ اعدادوشمار بالواسطہ حاصل کئے گئے یعنی کے ان ہسپتالوں سے جہاں یہ خواتین غیر محفوظ ابارشن کے بعد ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے علاج کرانے پہنچیں۔
گٹ ماکر انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ بچہ پیدا کرنے کی عمر کی ہر ایک ہزار میں سے پچاس خواتین اپنے حمل ضائع کر دیتی ہیں۔ یعنی 2012 میں پاکستان میں بائیس لاکھ ابارشنز کرائے گئے۔
ڈاکٹر یاسمین قاضی کے بقول "یہ بات افسوسناک ہے کہ پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں شادی شدہ جوڑے اسقاط حمل کو بطور مانع حمل طریقہ کار یا contraceptive استعمال کرتے ہیں"۔
اس سوال پر کہ کیا یہ جوڑے مذہبی وجوہات کی وجہ سے مانع حمل طریقہ کار استعمال کرنے سے کتراتے ہیں؟ ڈاکٹر یاسمین قاضی کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر بھی ایک سروے کروایا جا چکا ہے، جس میں مذہبی ممانعت وجوہات کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آتی ہے۔ کانٹراسیپٹو استعمال نہ کرنے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ اب بھی معلومات میں کمی اور ان کے سائیڈ ایفیکٹس پر شبہات ہے۔
سروے میں خواتین کی بڑی تعداد نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ مانع حمل دوائیاں لینے سے ان کا وزن بڑھ جائے گا، دوسری بیماریاں لگ جائیں گی یا پھر وہ کبھی دوبارہ بچہ نہیں پیدا کر پائیں گی۔
دوسری اہم وجہ مانع حمل ادویات اور اشیاء کی سپلائی میں کمی ہے جبکہ بہت سی خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں اس کے بارے صحیح معلومات ہی میسر نہیں ہیں۔
اسقاط حمل قانون
پاکستان کے اسقاط حمل قانون میں 1991 میں ترمیم کی گئی جو 1997 میں باقاعدہ قانون کا حصہ بن گئی۔ اس قانون کے تحت پاکستان میں اسقاط حمل جرم ہے ماسوائے اس کے کہ ماں کی جان کو خطرہ ہو۔ زچگی کی ابتدا میں "ضروری علاج" کے تحت بھی اسقاط حمل کی گنجائش چھوڑ دی گئی مگر اس "ضروری علاج" کی وضاحت نہ ہونے پر آج بھی سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کبھی اپنے عقائد کی وجہ سے تو کبھی اسے قانونی طور پر ممنوع سمجھ کر خواتین کی مدد نہیں کرتے۔
مجبوراً یہ خواتین پھر مقامی دائیوں، نیم حکیموں یا کسی بھی ایسے شخص سے رجوع کرتی ہیں جو انہیں حمل ختم کرنے میں مدد کرنے کا وعدہ کر سکے۔ چونکہ یہ افراد نا تجربہ کار ہوتے ہیں اور ان کے پاس ضروری تعلیم، ٹریننگ اور سہولتیں بھی نہیں ہوتی ہیں، اس لئے یہ کہنا غلط نہیں کہ زچگی ختم کرنے کے لئے یہ خواتین اپنی جان داؤ پر لگا دیتی ہیں۔
تحریر کے شروع میں بیان کئے گئے واقعات اخبارات کی سرخیاں نہ بنتے، اگر یہ عورتیں شادی شدہ ہوتیں اور ان کی موت کو دوران زچگی ہونے والی اموات میں تصور کیا جاتا۔ اگر جان بچ بھی جائے تو خواتین کی بڑی تعداد غیر محفوظ اسقاط کی وجہ سے میڈیکل پیچیدگیوں اور شدید تکلیف اور بیماریوں کا سامنا کرتی ہے۔ ان پیچیدگیوں میں نا مکمل اسقاط، بہت زیادہ خون کا بہہ جانا، تولیدی نالیوں اور رحم کو نقصان پہنچنا، ان کے ارد گرد موجود دیگر اندرونی اعضاء جیسے کہ پیٹ یا بڑی آنت کو گزند پہنچنا اور بیکٹیریل انفیکشن شامل ہیں۔ زیادہ خون بہنے کے علاوہ جسم میں انفیکشن پھیلنا بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ کبھی اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچنے پر فوری طور پر بڑے آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے تو کبھی بچہ دانی ہی آپریشن کرکے نکالنی پڑ سکتی ہے۔
پاکستان میں عورتیں اسقاط حمل کیوں کراتی ہیں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ چور راستوں سے کروائے گئے اسقاط حمل پر جان بھی جا سکتی ہے اور صحت بھی۔ یہ جاننے پر بھی کہ اسقاط حمل پر قانون سے انہیں سزا ہو سکتی ہے اور یہ بھی جاننے کے باوجود کہ اسے معاشرے میں قبولیت حاصل نہیں، اتنی بڑی تعداد میں خواتین پھر بھی ابارشنز کیوں کراتی ہیں؟
ڈاکٹر یاسمین قاضی غربت کو اس کی وجہ گردانتی ہیں، "بہت سی خواتین کے لئے یہ زچگیاں نا پسندیدہ ہوتی ہیں، گھر میں پہلے سے ہی کئی بچے ہوتے ہیں۔ کہیں شوہر بےروزگار ہوتے ہیں تو کہیں تنخواہ اتنی قلیل کہ ان کے پاس گھر میں ایک اور فرد کو برداشت کرنے کے وسائل ہی نہیں ہوتے". جب نہ چاہتے ہوئے بھی حمل ٹھہر جائے تو ان کو ابارشن کرا کر خود کی جان خطرے میں ڈالنے کے علاؤہ کوئی راستہ نہیں سوجھتا۔
کیا پاکستان کوابارشن سے متعلق قانون میں نرمی لانی چاہیئے؟
پاکستان کے قانون میں گو کہ مبہم مگر "ضروری علاج" کے تحت پہلے ہی یہ گنجائش موجود ہے، مسئلہ اس کے استعمال میں ہے۔ ڈاکٹرز کو بالخصوص سرکاری اسپتالوں میں اگر اس کی آگاہی اور ٹریننگ دی جائے تو نہ صرف ان عورتوں کی جان اور صحت بچائی جا سکتی ہے بلکہ صحت کے نظام پر اسقاط حمل کے بگڑے ہوئے کیسز سے نمٹنے کے بوجھ اور اخراجات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق جن ممالک میں ابارشن قوانین نسبتاً نرم ہیں وہاں ایک ہزار زچگیوں میں 34 ابارشنز ہوتے ہیں جبکہ جن ممالک میں قوانین سخت ہیں وہاں یہ شرح ایک ہزار میں 37 ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سخت قوانین اسقاط حمل کرانے والے شہریوں کی حوصلہ شکنی کرنے میں ناکام ہیں۔
چونکہ اسقاط حمل کی پاکستان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی گھرانے جانتے ہیں کہ وہ ایک اور بچے کا بوجھ نہیں برداشت کر سکتے اس لئے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے ہر کونے میں فیملی پلاننگ آگاہی اور اس سے جڑی بد گمانیوں اور بے بنیاد اندیشوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بات اسقاط حمل تک پہنچے ہی نہیں۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں زچگی کے ابتدائی ہفتوں میں بطور ضرورت اسقاط حمل کی سہولت فراہم کی جائے کیونکہ حکومت کی طرف سے اس سہولت کے فقدان سے اسقاط حمل رکتے تو نہیں البتہ انسانی جان کے زیاں کا باعث اور خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت ہر اثرانداز ضرور ہوتے ہیں۔