بلوچستان کے بعض سنئیر وکلا نے قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ کےلئے سابق سینیٹر جاوید جبار کو صوبے کی نمائندگی کےلئے نامزدگی کو بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے، جس پر عدالت نے وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرلز اور دیگر متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر دئے ہیں۔
آئینی پٹیشن سُپریم کورٹ کے سابق صدر کامران مرتضیٰ، بلوچستان ہائیکورٹ کے سابق صدر عطاءاللہ لانگو اور بعض دیگر وکلا نے دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ این ایف سی آئینی فورم ہے۔ این ایف سی کمیشن میں وفاقی مشیر خزانہ کی رکنیت غیر آئینی ہے، جبکہ سابق سینٹر جاوید جبار کو این ایف سی کمیشن میں بلوچستان کی نمائندگی کےلئے نامزد کیا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جاوید جبار ایک مصنف ہیں۔ اُن کو ٹیکنیکل عہدہ سونپنا غیرقانونی عمل ہے۔ اس لئے اُن کی تقرری آئین و قانون کے منافی ہے۔ اور یہ کہ عدالت عالیہ نیشنل فنانس کمیشن کے قیام کو کالعدم قرار دے۔ آئینی درخواست میں وفاق اور چاروں صوبوں کے وزارت خزانہ کو فریق بنایا گیا ہے۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کردئے ہیں۔ آئینی درخواست پر سماعت 21 مئی کو ہوگی۔
بلوچستان کی بعض سیاسی جماعتوں نے سابق سینٹر جاوید جباز کو این ایف سی کمیشن کےلئے بلوچستان کی نمائندگی کےلئے چننے پر کافی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر، بی این پی مینگل، پشتونخواہ میپ کے ارکان صوبائی اسمبلی نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں جلد وزیر اعلیٰ سے ملاقات کر ینگے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے بھی سابق سینیٹر جاوید جبار کی نامزدگی کو بلوچستان کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے، جبکہ مسلم لیگ نون نے اس نامزدگی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے وائس اف امر یکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ وہ ذاتی طور پر جاوید جبار کو جانتے ہیں۔ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ لیکن جہاں تک بلوچستان کا مسئلہ ہے میری رائے میں جام کمال خان کو ایک ایسا شخص منتخب کرنا چاہیے جو اس بحرانی دور میں بلوچستان کی صحیح نمائندگی کر سکتا ہو۔
انھوں نے کہا چونکہ اس وقت وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ جو این ایف سی کا بنیادی فارمولا یا اسٹریکچر ہے اس چھیڑیں اور جو تناسب صوبوں اور وفاق کے لئے رکھا گیا ہے اس کو بھی کم کریں۔ اور یہ جو قرضے ہیں، ترقیاتی عمل ہے وہ سب صوبوں کے گلے میں ڈال دیں۔ میری رائے میں اس وقت ایک ٹیکنکل آدمی کی این ایف سی کےلئے ضرورت تھی اور وہ بلوچستان میں موجود ہیں۔ اگر موجود نہ بھی ہوتے تو وزیر اعلیٰ کو اپنے اتحادیوں سے اس حوالے سے مشورہ کر لینا چاہیے تھا۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ ملک اس وقت مختلف بحرانوں کا شکار ہے۔ ملک میں کرونا ہے ملک کو مالی بحران درپیش ہے اور اس کے ساتھ ملک میں سیاسی بحران ہے۔ اس کے باوجود بنیادی مسائل کو چھیڑا جا رہا ہے جو ملک کی سلامتی کےلئے خطرناک ہے۔
دوسری طرف، سابق سینٹر جاوید جبار نے میڈیا کو کراچی میں جاری کئے گئے ایک بیان میںؒ کہا ہے کہ انہوں نے این ایف سی کمیشن میں بلوچستان کی نمائندگی کی کبھی کوئی کوشش نہیں؛ بلکہ انہوں نے یہ عہدہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کے اسرار پر قبول کیا ہے۔
جاوید جبار نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ اُن کی باقاعدہ وابستگی گزشتہ پینتالیس سالوں سے ہے۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے بلوچستان کے لئے مختلف شعبوں میں کام کر کے صوبے میں غربت کم کرنے، نا انصافیاں ختم کرنے اور صحت و تعلیم کے فروغ کےلئے کام کیا ہے۔
بعض حلقوں کی طرف سے اُن کی نمائندگی پر اعتراضات اور بلوچستان کے ساتھ وابستگی اور این ایف سی کے حوالے سے تجربہ نہ ہونے کے سوال پر جاوید جبار کا کہنا ہے کہ ہر ایک کو دوسرے کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔ انہوں نے یہ عہدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ وزیر اعلیٰ کی مہربانی اور اُن کے اسرار پر انہوں نے نامزدگی قبول کی ہے۔